بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قدیم قبرستان میں نئے مردے دفن کرنا


سوال

ہمارے علاقہ چترال کے ایک گاؤں "سویر" میں ایک بہت بڑا قبرستان ہے، جس میں ستر سال پرانے مردے دفن ہیں، وہ پورا قبرستان بھر چکا ہے، کیا اس قبرستان کو منہدم کر کے اس میں نئے مردوں کی تدفین کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح اس قبرستان کو منہدم کر کے جنازہ گاہ یا عید گاہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟

علاقہ کے بڑے حضرات منہدم کرنے پر راضی ہوں اور بعض منہدم کرنے پر راضی نہ ہوں تو کیا کرنا ہو گا؟

جواب

اگر کسی قبرستان میں موجود  قبریں  اتنی پرانی ہوچکی ہوں  کہ ان میں دفنائی گئی میتیں بالکل مٹی بن چکی ہوں  تو اس صورت میں بوقت ضرورت  اس قبرستان کی بوسیدہ قبروں  میں میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہے۔

قدیم قبرستان  جس مقصد کے لیے وقف ہے اُسی میں استعمال کرنا لازم ہے، جب کہ  مذکورہ قبرستان میں تدفین کی حاجت  و ضرورت بھی ہے۔

اگر علاقے والوں میں آپس میں کچھ اختلاف ہو تو  جو شرعی  حکم لکھا ہے اس کے مطابق فریقین کو راضی کیا جائے اور اس پر عمل کروایا جائے، ضرورتِ وقف (تدفین) باقی ہے تو جنازہ گاہ وغیرہ بنانا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ  قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اهـ قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء إذا لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول تراباً، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبول السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل".

(کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة ، جلد : 2 ، صفحه : 233 ، طبع : سعيد)

عمدۃ القاری میں ہے:

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجداً لم أر بذلك بأساً، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضاً وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد".

(كتاب الصلاة ، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد ، جلد : 4 ، صفحه : 179 ، طبع : دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603102745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں