بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قدیم مسجد سے جدید مسجد کے امام کی اقتداء کرنا جب کہ دونوں مسجدوں کے درمیان بارہ فٹ کا فاصلہ ہو؟


سوال

ہمارے گاؤں كى قديم مسجد چھوٹی ہے، اس لیے محلہ والوں نے اس كی جانبِ شمال ميں تقريباً باره فٹ دور پر نئے سرے سے ايك بڑی مسجد بنالی ہے ،اب پانچ وقت كی نمازوں كى جماعت اس جديد مسجد ميں ہوتی ہے اور قديم مسجد خالى رہنے كى بناء پر گاؤں كى عورتیں اس ميں آكر جديد مسجد كے امام كی اقتداء كركے جماعت كے ساتھ نماز پڑھتی ہيں ،دو مسجد كى خالى جگہ كے كچھ حصہ ميں کسی حائل و چھت كے بغير ايك وضوخانہ ہے اور باقى حصہ خالى ہے ، اب ان عورتوں كى نماز كا كيا حكم ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ جس جگہ پر  ایک بار مسجدِشرعی بن جاتی ہے  وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے، کسی کو اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے؛ مسلمانوں اور اہلِ محلہ پر اس کو آباد کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہوتا ہے،اگر ممکن ہو تو پنج وقتہ نمازوں کے لیے امام ومؤذن مقرر کرلیا جائے، تاکہ کچھ نہ کچھ نمازی ہر نماز کے وقت موجود رہیں، یوں مسجد آباد رہے گی یا درمیان کا بارہ فٹ بھی مسجد میں شامل کرکے دونوں مساجد کو ایک کردیا جائے۔

2۔واضح رہے کہ  اگر امام اورمقتدیوں کے درمیان یاآپس میں مقتدیوں کی صفوں کے درمیان  ایسا کشادہ راستہ ہو  جہاں سے گاڑی گزرسکےیا دوصفوں کے بقدر جگہ خالی ہویا امام ایک مکا ن میں ہو اور مقتدی دوسرے مکان میں ہوں اور دونوں کے درمیان فاصلہ ہوتو ایسی صورت میں  ان فاصلہ سےاقتداء کرنے والوں کی اقتداء درست نہیں ہوگی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب دونوں مسجدوں کے درمیان بارہ فٹ چوڑی جگہ  ہے ،جس میں کچھ جگہ پر تو وضو خانہ ہے اور کچھ جگہ خالی ہے  تو ایسی صورت میں دونوں مسجدوں کے الگ الگ مکان ہونے اور درمیان میں فاصلہ ہونے کی وجہ سے قدیم چھوٹی مسجد سے خواتین کا بڑی مسجد میں نماز پڑھانے والے امام کے پیچھےاقتداء کرنادرست نہیں ہے، جن خواتین نے امام کی اقتداء میں  اس  چھوٹی مسجد میں جو نمازیں پڑھی ہیں وہ نہیں ہوئی ہیں، اُن نمازوں کالوٹانا اُن پر لازم ہے ، نیز خواتین کے لیے مسجد میں آنا مکروہ ہے ،اس لیے خواتین مسجد میں جماعت کے لیے نہ آئیں ،بلکہ  وہ گھر پر انفرادی نماز ادا کریں، یہ ان کے لیے زیادہ اجرو ثواب کا باعث ہے۔

فتاوٰ ی شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتی).قال ابن عابدين: مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر. (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ."

(كتاب الوقف، مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره، 358/4، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المانع من الاقتداء ثلاثة أشياء:(منها) طريق عام يمر فيه العجلة والأوقار هكذا في شرح الطحاوي إذا كان بين الإمام وبين المقتدي طريق إن كان ضيقا لا يمر فيه العجلة والأوقار لا يمنع وإن كان واسعا يمر فيه العجلة والأوقار يمنع.......والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين وفي مصلى العيد الفاصل لا يمنع الاقتداء وإن كان يسع فيه الصفين أو أكثر وفي المتخذ لصلاة الجنازة اختلاف المشايخ وفي النوازل جعله كالمسجد. كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع، 87/1، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقًا."

 (کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، 584،585/1، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدى من سطح داره المتصلة بالمسجد لم يجز لاختلاف المكان درر وبحر وغيرهما.

(قوله درر) عبارتها: الحائل بينهما لو بحيث يشتبه به حال الإمام يمنع وإلا فلا، إلا أن يختلف المكان. قال قاضي خان: إذا قام على الجدار الذي يكون بين داره وبين المسجد ولا يشتبه حال الإمام يصح الاقتداء، وإن قام على سطح داره وداره متصلة بالمسجد لا يصح اقتداؤه وإن كان لا يشتبه عليه حال الإمام لأن بين المسجد وبين سطح داره كثير التخلل فصار المكان مختلفا.أما في البيت مع المسجد لم يتخلل إلا الحائط ولم يختلف المكان، وعند اتحاد المكان يصح الاقتداء إلا إذا اشتبه عليه حال الإمام. اهـ. أقول: حاصل كلام الدرر أن اختلاف المكان مانع مطلقا. وأما إذا اتحد، فإن حصل اشتباه منع وإلا فلا، وما نقله عن قاضي خان صريح في ذلك...فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المكان مانع من صحة الاقتداء ولو بلا اشتباه، وأنه عند الاشتباه لا يصح الاقتداء وإن اتحد المكان: ثم رأيت الرحمتي قرر كذلك فاغتنم ذلك."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة،586,587/1،ط:سعيد)

فتاوٰی محمود یہ میں ہے:

"جو جگہ ایک دفعہ شرعی طریقہ پر مسجد بنادی گئی ہے اور وہاں اذان جماعت شروع ہو جاۓ تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسجد بن جاتی ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ہو، جب نئی مسجد بنائی گئی تو اس میں بھی اذان ، جماعت سب درست ہے، پرانی مسجد کا کوئی نشان اب موجود نہیں لیکن اگر دلیل سے ثابت ہو جا ئے کہ یہاں سے یہاں تک مسجد تھی ، تو اب اس کو قبرستان کے کام میں لانے کی اجازت نہیں ، بلکہ اس جگہ کو گھیر کر محفوظ کر دیا جاۓ ، تاکہ وہاں مردے دفن نہ ہوں اور اذ ان ،نماز سے اس پرانی چھوٹی مسجد کو بھی آباد کیا جائے۔"

(کتاب الوقف، باب احکام  المساجد، 111٫112/23، ط: ادارۃ الفاروق) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں