بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدہ اولیٰ میں تشہد سے پہلے مکمل سورہ فاتحہ یا کچھ حصہ پڑھنے سے سجدہ سہو کے واجب ہونے کا حکم


سوال

 قعدہ اولی میں تشہد کی جگہ سورہ فاتحہ کی کتنی مقدار سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے ،کیا مطلقا سورہ فاتحہ کی قرأت سجدہ سہو واجب کرتا ہے؟

جواب

اگر نماز کے قعدہ اولیٰ میں تشہد کی جگہ  سورہ فاتحہ مکمل پڑھ لی یا کم از کم اتنی مقدار پڑھ لی جس کی وجہ سے تشہد پڑھنے میں ایک رکن (تین بار سبحان اللہ کہنے) کے بقدر تاخیر ہوگئی  تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا،البتہ اگر ایک رکن کے بقدر تاخیر ہونے سے پہلے یاد آنے پر تشہد پڑھ لی تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا قرأ الفاتحة مكان التشهد فعليه السهو وكذلك إذا قرأ الفاتحة ثم التشهد كان عليه السهو، كذا روي عن أبي حنيفة - رحمه الله - في الواقعات الناطفية".

(كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، 1/ 127،ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ثم رأيت في سهو البحر قال بعد ما مر: وقيده في فتح القدير بأن يكون مقدار ما يتأدى به ركن. اهـ. أي لأن الظاهر أن العلة هي تأخير الابتداء بالفاتحة والتأخير اليسير، وهو ما دون ركن معفو عنه تأمل. ثم رأيت صاحب الحلية أيد ما بحثه شيخه في الفتح من القيد المذكور بما ذكروه من الزيادة على التشهد في القعدة الأولى الموجبة للسهو بسبب تأخير القيام عن محله، وأن غير واحد من المشايخ قدرها بمقدار أداء ركن".

(كتاب الصلاة،واجبات الصلاة،1/ 460،ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" (و) ... (أداء ركن) حقيقة اتفاقا (أو تمكنه) منه بسنة، وهو قدر ثلاث تسبيحات".

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها،1/ 625،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں