بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضہ سے پہلے پلاٹ آگے فروخت کرنا


سوال

کوئی شخص کسی سے کوئی پلاٹ خریدتا ہےاورثمن کی ادائیگی  اورپلاٹ پر قبضہ اور اس کی فائل حاصل کرنے سے پہلے ہی  اُسے  نفع پرآگے بیچ دیتا ہے،کیا ایسا کرنا شرعاًجائز ہے؟

اوراگر بائع،مشتری کو پلاٹ دکھاکر اسے اس پر فروخت کرکے  اس پر قبضہ بھی دے دےاور پھر مشتری،ثمن کی ادائیگی سے پہلے اس پلاٹ کو آگے نفع پر فروخت کردےتواس کا کیا حکم ہے؟کیا ایسا کرنا شرعاًجائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زمین  وجائیداد(غیرمنقولی چیزوں )کوخریدنے کے بعد ،اس پرقبضہ کرنےسے پہلے کسی اورکو فروخت کرنا جائز ہے ،بشرط یہ کہ وہ زمین وجائیداد(غیرمنقولی چیز)متعین ہواوراس کے حدودِاربعہ معلوم ہوں؛لہٰذامذکورہ دونوں صورتوں  (یعنی چاہے  خریدنے والے نےپلاٹ پرقبضہ کیاہو یا نہ کیا ہو)میں  مشتری کے لیے پلاٹ،کسی اورکو فروخت کرنا جائز ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما حكم البيع ۔۔۔ فهو ثبوت الملك للمشتري في المبيع، وللبائع في الثمن للحال."

(کتاب البیوع،فصل فی حکم البیع،5۔233،ط:سعید)

مجلۃ الأحكام العدليۃ میں ہے:

" بيع حصة شائعة معلومة كالثلث والنصف والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز صحيح."

(‌‌الكتاب الأول في البيوع،‌‌الباب الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالمبيع،‌‌الفصل الثاني: في ما يجوز بيعه وما لا يجوز،المادة:214،ص43،ط:نورمحمد،کراچی)

وفیه ایضاً:

"للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا."

(‌‌الكتاب الأول في البيوع،‌‌الباب الرابع: في بيان المسائل المتعلقۃفي الثمن والمثمن بعد العقد،الفصل الأول: في بيان حق تصرف البائع بالثمن والمشتري بالمبيع بعد العقد وقبل القبض،المادة:253،ص52،ط:نورمحمد،کراچی)

البحر الرائق میں ہے:

"قوله (صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز."

(کتاب البیوع،باب الاقالة،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:126 ،ط:دارالكتاب الاسلامي)

شرح المجلہ لرستم باز  میں ہے:

"للمشتری ان یبیع المبیع لآخر قبل قبضه ان کان عقارا واشار بقوله : للمشتری ان یبیع الخ : الی ان بیعه جائز، لکن لایلزم من جواز البیع نفاذہ ولزومه؛ فانھما موقوفان علی نقد الثمن او رضی البایع، والا فللبایع ابطاله - ای ابطال بیع المشتری."

(کتاب البیوع،ج:2،ص:173،المادة:253،ط:مکتبه رشیدیه)

الدر مع الرد  میں ہے:

"ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي"

(کتاب البیوع،ج:4،ص:454،ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"(المادة 200) : (يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري) لان البیع المجھول فاسد."

(الکتاب الاول فی البیوع ،الباب الثانی :فی بیان المسائل المتعلقة بالمبیع،ج:1،ص:78،المادۃ:200،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں