بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضہ شدہ زمین پر بنی ہوئی مسجد کو مسمار کرنے کا حکم


سوال

تین سال پہلے کسی بلڈر نے ہمیں مسجد کا پلاٹ وقف کر کے دیا تھا ، ہم نے وہاں کچی مسجد تعمیر کی اور وہاں دو نمازیں جماعت کے ساتھ بھی ہو رہی ہیں، دو سال تراویح بھی ہوئی ہے، ابھی دوسرا بلڈر آیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ پوری زمین ہماری ہے،  اس لئے آپ کو اسی زمین میں دو پلاٹ چھوڑ کر مسجد کے لئے دوسری متبادل جگہ دے رہےہیں،  کیوں کہ ہم نے جو کٹنگ کا نقشہ بنایا ہے،آپ مسجد وہاں تعمیر کروائیں، جبکہ  پہلے والی مسجد کی وجہ سے ہمارے تین پلاٹ خراب ہورہے ہیں،  اس لیے یہ مسجد شہید کر کے دوسرے پلاٹ میں منتقل کریں، براہِ کرم مذکورہ مسئلے کا شرعی اعتبار سے حکم بتلادیں۔

وضاحت: مذکورہ زمین پر کچھ لوگوں نے قبضہ کرکے اپنے حساب سے اس وقت پلاٹنگ کی، اور انہی لوگوں نے ایک پلاٹ مسجد کے لئے دیاتھا، جس پر کچی مسجد تعمیر کی گئی، پھر اصل مالکوں نے کورٹ میں کیس کرکے مذکورہ زمین اپنے کرکے حاصل کرلی، اب یہ لوگ اپنے حساب سے پلاٹنگ کرکے مسجد کے لئے دی گئی پلاٹ کی جگہ متبادل پلاٹ دے رہے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ مسجدِ شرعی کے لئے جگہ وقف کرنے کی شرائط میں سے ایک اہم ترین شرط یہ ہے کہ زمین وقف کرنے والا اس زمین کا مالک ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ زمین کو مسجد کے لئے وقف کرنے والے زمین کے مالک نہیں تھے(جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے یعنی قبضہ کرنے کے بعد پلاٹ کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا، اور پھر کورٹ کے حکم سے مذکورہ زمین اپنے اصل مالک کو مل گئی)تو ان کی طرف سے مسجد کے لئے وقف شدہ زمین مسجد کے لئے وقف نہیں ہوئی، بلکہ یہ غصب شدہ زمین پر مسجد تھی، اور غصب شدہ زمین پر مسجد تعمیر کرنا گناہ ہے،  لہذا مذکورہ تعمیر  کو مسمار کرکے متبادل پلاٹپر مسجد تعمیر کرنا درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرطه شرط سائر التبرعات) كحرية وتكليف ...

(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون محجورا عن التصرف، حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح".

(کتاب الوقف،مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة ، ج:4، ص:340، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"قال: وفي شرح المنية للحلبي: بنى مسجدا في أرض غصب لا بأس بالصلاة فيه. وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ".

(کتاب الصلوۃ، تنبیہ، ج:1، ص:381، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں