بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضہ کیے بغیر فروخت کرنے کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی کے لیے کام کرتا ہوں، کام یہ ہوتا ہے کہ کمپنی مجھے کہتی ہے کہ آپ ہمارے نمائندے ہو، ہماری پراڈکٹس/چیزوں کی تصاویر پھیلاؤ اور گاہک بناؤ، چیز دیکھ کر  جب میرے پاس کوئی گاہک آتا ہے تو میں اسے کمپنی کا ایڈریس بھیجتا ہوں، کمپنی اس کو وہ چیز بھیج دیتی ہے، اور وہ شخص پیسے مجھے دے دیتا ہے، اس دوران میں اس چیز کو نہ دیکھتا ہوں، نہ ہاتھ لگاتا ہوں، میرے قبضے میں آئے بغیر وہ چیز مشتری تک پہنچ جاتی ہے، پھر ہوتا یہ ہے کہ کمپنی مثلاً:وہ چیز مجھے 1500 روپے کی دیتی ہے اور میں 2000 روپے کی فروخت کرتا ہوں، جب مجھے قیمت مل جاتی ہے تو میں 1500 کمپنی کو بھیج دیتا ہوں اور 500 اپنے پاس نفع رکھ لیتا ہوں، سوال یہ ہے کہ یہ بیع جائز ہے یا نہیں؟اور نفع کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ محض کمپنی کے نمائندے/کمیشن ایجنٹ  کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ان کا سامان فروخت کرواتے ہو، تو اس صورت میں سوال میں ذکر کیا گیا معاملہ جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال ہے۔(1)

البتہ اگر آپ کمپنی سے مال خرید کر آگے فروخت کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہے، قبضے سے پہلے فروخت کرنے کی وجہ سے یہ بیع فاسد ہے، اور آپ کے لیے اس طرح نفع لینا بھی درست نہیں، یہ مکمل رقم بشمول نفع کمپنی کو ملے گی، آپ کے لیے اس صورت میں نفع لینا جائز نہیں ہے۔(2)

(1)فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام۔"

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج:٦، ص:٦٣، ط:سعید)

(2)صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما، فلا يبعه حتى يستوفيه، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله." 

ترجمہ:"آپ ﷺنے فرمایا :جو شخص غلہ خریدے،تو اسے آگے نہ بیچےجب تک کے اس کو پورا وصول نہ کرلے،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اور میرا خیال ہے کہ  ہر چیز اسی طرح ہے۔"

(‌‌كتاب البيوع،‌‌ باب بطلان بيع المبيع قبل القبض، ج:٣، ص:١١٥٩، رقم:١٥٢٥، ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فمنها) : أنه لا يجوز التصرف في المبيع المنقول قبل القبض بالإجماع...لما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه نهى عن بيع ما لم يقبض...(ومنها) أنه لا يجوز بيع ما ليس عند البائع إلا السلم خاصة لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم."

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، ج:٥، ص:٢٣٥، ط:دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وبيع ما ليس في ملكه) لبطلان بيع المعدوم (قوله وبيع ما ليس في ملكه) فيه أنه يشمل بيع ملك الغير لوكالة أو بدونها مع أن الأول صحيح نافذ والثاني صحيح موقوف. وقد يجاب بأن المراد بيع ما سيملكه قبل ملكه له ثم رأيته كذلك في الفتح في أول فصل بيع الفضولي، وذكر أن سبب النهي في الحديث ذلك (قوله لبطلان بيع المعدوم) إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما ببيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:٥، ص:٥٩، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے ذیل میں ہے:

"اس کی قیمت مالک کو پہنچائے، اگر وہ معلوم نہ ہو تو اتنا مال غریبوں کو بلا نیت ثواب صدقہ کردے۔"

(کتاب البیوع، فصل اول:بیع باطل کا بیان، ج:23، ص:458، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں