بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں بنائی گئی جنازہ گاہ میں عید کی نماز ادا کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں عیدگاہ موجود نہیں ہے، اگرعید کی نماز جنازہ گاہ میں قبروں کے درمیان پردہ حائل کر کے ادا کی جائے تو کیانمازعید بلاکراہت جائز ہو گی یا نہیں؟ مدلل راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ عید کی نماز کے درست ہونے کے لیے عیدگاہ یا مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے،جگہ کاپاک ہوناضروری ہے، البتہ عیدگاہ میں عید کی نماز پڑھنا سنت ہے۔

اسی طرح  جنازہ گاہ میں عیدکی نمازپڑھنےکی صورت میں قبریں  اگرنمازی کےسامنےہوں اور درمیان میں کوئی    دیواریاپردہ  وغیرہ  حائل نہ ہو تو ایسی جگہ  نماز پڑھنا مکروہ ہے ،اوراگرنمازی اورقبروں کےدرمیان کوئی دیواریاعارضی طورپرپردہ حائل ہوتوایسی صورت میں  نماز بلاکراہت صحیح ہوجائے گی ۔ 

لہذاصورتِ مسئولہ میں جنازہ گاہ میں  قبروں کے درمیان پردہ حائل کر کےاگرعیدکی نماز ادا کرلی جائے توعیدکی نماز بلاکراہت صحیح ہوجائے گی ۔ 

سنن الترمذی میں ہے :

"عن أبي مرثد الغنوي قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تجلسوا ‌على ‌القبور، ولا تصلوا إليها."

(أبواب الجنائز ،باب  ماجاء فی کراھیة المشي علی القبوروالجلوس علیھا 355/2، رقم:1050، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب شروط الصلاة.....(هي) ستة (طهارة بدنه) أي جسده لدخول الأطراف في الجسد دون البدن فليحفظ (من حدث) بنوعيه، وقدمه لأنه أغلظ (وخبث) مانع كذلك (وثوبه).....(ومكانه) أي موضع قدميه أو إحداهما إن رفع الأخرى وموضع سجوده اتفاقا في الأصح."

(كتاب الصلاة،  باب شروط الصلاة، 403/1، ط: سعيد)

وفيهاأيضا:

"(‌والخروج ‌إليها) ‌أي ‌الجبانة ‌لصلاة ‌العيد (سنة وإن وسعهم المسجد الجامع) هو الصحيح."

(كتاب الصلوة،باب العيدين169/2،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الخروج ‌إلى ‌الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات."

(كتاب الصلوة،الباب السابع عشر في صلاة العيدين150/1،ط:سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"لأن المسنون في العيد ‌الخروج ‌إلى ‌الجبانة....... لأن أداء الصلاة في المسجد أفضل منه بالجبانة ."

(كتاب الذبائح، أول وقت الأضحية، 11/12، ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ  میں ہے :

"وتكلموا أيضا في معنى الكراهة إلى القبر، قال بعضهم: لأن فيه تشبها باليهود، وقال بعضهم: لأن في المقبرة عظام الموتى وعظام الموتى أنجاس وأرجاس، وهذا كله إذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع حائط أو سترة، أما إذا كان، لا يكره ويصير الحائط فاصلا، وإذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع سترة، فإنما يكره استقبال هذه المواضع في مسجد الجماعات، فأما في مسجد البيوت، فلا يكره، كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن ،320/5 ط: دارالفكر)

البحرالرائق میں ہے:

"الحادي عشر أن ‌سترة ‌الإمام تجزئ عن أصحابه كما هو ظاهر الأحاديث الثابتة في الصحيحين من الاقتصار على سترته - صلى الله عليه وسلم - وقد اختلف العلماء في أن ‌سترة ‌الإمام هل هي بنفسها سترة للقوم وله أو هي سترة له خاصة وهو سترة لمن خلفه فظاهر كلام أئمتنا الأول ولهذا قال في الهداية وسترة الإمام سترة للقوم".

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا،31/2ط: دار الکتب العلمیه بیروت)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وكفت سترة الإمام) للكل(قوله للكل) أي للمقتدين به كلهم".

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا،638/1 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں