بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں داخل ہوتے وقت کیا جانے والا سلام مردے سنتے ہیں


سوال

ہم جو قبرستان میں سلام کرتے ہیں کیا مردے سنتے ہیں ؟

جواب

  عام مردوں کے قبروں میں سننے  یا نہ سننے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے  دور  سے ہی دو رائے چلی آرہی ہیں، راجح بات یہ ہے کہ  احادیثِ  مبارکہ  میں جن مواقع پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے، ان مواقع پر تو مردوں کا سننا یقینی طور پر ثابت ہے، اس کے علاوہ احوال میں بھی مردے قبروں  میں سن  سکتے  ہیں۔

چناں چہ   قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت کیے جانے والے سلام کو مردے سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ احادیثِ  مبارکہ میں ہے کہ   جب کوئی آدمی اپنے جان پہچان والے مسلمان بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام کرتا ہے تو مردہ اسے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے، اور اگر وہ مردہ اس کو پہلے نہیں پہچانتا تھا تو بھی   خوش ہوتا ہے اور  سلام کا جواب دیتا ہے۔

ملاحظہ:مذکورہ مسئلہ عام مردوں سے متعلق ہے ،انبیاء کرام علیہم السلام سے متعلق نہیں ہے ، انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور از روئے حدیثِ مبارک رسول اللہ ﷺ  قبر شریف پر آکر درود و سلام پڑھنے والے کا سلام سن کر خود جواب دیتے ہیں، اور جو لوگ دور سے درود و سلام پڑھیں ان کا سلام فرشتے خدمتِ اقدس میں پہنچادیتے ہیں، چناں چہ رسول اللہ ﷺ اس کا جواب دیتے ہیں، بہرحال مردوں کے سننے یا نہ سننے کے حوالے سے اختلافِ رائے کا تعلق انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اپنی قبورِ مبارکہ میں سننے سے نہیں ہے۔

 شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبورللسيوطي میں ہے:

"أخرج إبن أبي الدنيا في كتاب القبور عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا إستأنس ورد عليه حتى يقوم. وأخرج أيضا والبيهقي في الشعب عن أبي هريرة رضي الله عنه قال إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام. وأخرج إبن عبد البر في الإستذكار والتمهيد عن إبن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام صححه عبد الحق. وأخرج إبن أبي الدنيا في القبور والصابوني في المائتين عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من عبد يمر على قبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(باب زيارة القبور وعلم الموتى بزوارهم ورؤيتهم لهم، ص: 201، ط: دار المعرفة - لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"وقال ابن القيم: الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

(کتاب الصلاۃ، باب أحكام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص: 620، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں