بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کے سامنے بغیر کسی سترہ کے عید کی نماز ادا کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین  ومفتیان شرع مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک عیدگاہ ہے، عیدگاہ میں جہاں امام کھڑے ہو کر عید کی نماز پڑھاتے ہیں، اس کے بالکل قریب پانچ چھ قدم آگے قبلہ کی جانب قبرستان ہے، عیدگاہ اور قبرستان کے درمیان کوئی دیوار بھی حائل نہیں ہے، اس عیدگاہ میں  میں پہلے عید کی نماز پڑھا کرتا تھا، بعد میں لوگوں نے کہا کہ جب تک عید گاہ اور قبرستان دونوں کے درمیان دیوار حائل نہ ہو اس وقت تک اس عید گاہ میں نماز عید درست نہیں ہے ، بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبر اور عیدگاہ کے درمیان پردہ حائل کردیا جائے تو عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، (واضح رہے کہ ہمارا علاقہ جنگلی ہے، یہاں ہاتھی بہت نکلتے رہتے ہیں اور ہاتھی نکل کر لوگوں کے گھروں اور دیواروں کو توڑ دیتے ہیں اور عیدگاہ جنگل کے بالکل قریب ہے، اگر عیدگاہ اور قبرستان کے درمیان دیوار حائل کردی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ ہاتھی نکل کر عیدگاہ کی  دیوار کو توڑدے، ایسے میں دیوار کو بار بار بنانا گاؤں کے لوگوں کے لیے پریشانی ہوگی)۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ:

1۔ کیا اس عیدگاہ میں نماز عید پڑھنے کے لیے قبرستان اور عیدگاہ کے درمیان دیوار حائل کرنا ضروری ہوگا؟

2۔  عید کے دن عیدگاہ اور قبرستان کے درمیان عارضی طور پر پردہ حائل کردے تو اس صورت میں اس عیدگاہ میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ مدلل راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ  احادیث مبارکہ میں  قبروں کو سجدہ  گاہ بنانے کی ممانعت آئی ہے ،لہذا اگر قبریں نمازی کے سامنے  ہوں اور درمیان میں کوئی    پردہ  وغیرہ  حائل نہ ہو تو ایسی جگہ  نماز پڑھنا مکروہ ہے ،لہذا صورتِ مسئو لہ میں  عید گاہ اور قبرستان کے درمیان کوئی   پردہ وغیرہ  حائل نہ ہو  نےکی وجہ سے  وہاں عید کی نماز اداکرنا مکرو ہ ہے ،اگر ہاتھی دیوار توڑدیتے  ہیں تو  عید گاہ اور قبرستان کے درمیان   مستقل دیوار  بنانا ضروری نہیں ہے ،البتہ    عید کی نماز اداکرتے وقت  عید گاہ  اور قبرستان کے درمیان عارضی طور پر  پردہ رکھ دیا جائے تو اس صورت میں  نماز بلاکراہت صحیح ہوجائے گی ۔  

سنن الترمذی میں ہے :

"عن أبي مرثد الغنوي قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌لا تجلسوا ‌على ‌القبور، ولا تصلوا إليها»".

(ابواب الجنائز ،باب  ماجاء فی کراھیہ الواطی علی القبور ،والجلوس علیھا 358/3 ط:1 /328  مکتبة رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي القهستاني: لا تكره ‌الصلاة في جهة قبر إلا إذا كان بين يديه؛ بحيث لو صلى صلاة الخاشعين وقع بصره عليه كما في جنائز المضمرات".

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ  فیھا،654/1 ط:سعید )

فتاوی ہندیہ  میں ہے :

"وتكلموا أيضا في معنى الكراهة إلى القبر، قال بعضهم: لأن فيه تشبها باليهود، وقال بعضهم: لأن في المقبرة عظام الموتى وعظام الموتى أنجاس وأرجاس، وهذا كله إذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع حائط أو سترة، أما إذا كان، لا يكره ويصير الحائط فاصلا، وإذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع سترة، فإنما يكره استقبال هذه المواضع في مسجد الجماعات، فأما في مسجد البيوت، فلا يكره، كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن ،320/5 ط:مکتبه ماجدیه)

البحرالرائق میں ہے:

"الحادي عشر أن ‌سترة ‌الإمام تجزئ عن أصحابه كما هو ظاهر الأحاديث الثابتة في الصحيحين من الاقتصار على سترته - صلى الله عليه وسلم - وقد اختلف العلماء في أن ‌سترة ‌الإمام هل هي بنفسها سترة للقوم وله أو هي سترة له خاصة وهو سترة لمن خلفه فظاهر كلام أئمتنا الأول ولهذا قال في الهداية وسترة الإمام سترة للقوم".

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا،31/2ط: دار الکتب العلمیه بیروت)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وكفت سترة الإمام) للكل(قوله للكل) أي للمقتدين به كلهم".

(کتاب الصلاۃ ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا،638/1 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں