بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبروں پرپھول ڈالنے اور اگر بتیاں جلانے کا حکم


سوال

اگر پھول اپنے ذاتی ہوں،  تو کیا قبر پر پھول ڈالنا جائز اوراگر بتیاں جلانا جائز نہیں ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم،  تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ  سے ثابت نہیں ہے، اس لیے  قبر پر پھول ڈالنا چاہے اپنے ذاتی ہوں یا کسی دوسرے کے ہوں  کوئی فائدہ  نہیں ہے،  قبروں پر  پھول ڈالنے کے بجائے اتنی  رقم صدقہ وخیرات  کردے بہتر ہے اس سے میت کو فائدہ ہوگااور رقم بھی ضائع نہ ہوگی ، اسی طرح قبروں پر اگربتیاں یا چراغ جلانا بھی بدعت ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،  نیز احادیثِ مبارکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت فرمائی ہے اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

" لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ".

ترجمہ: "  سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔"(از مظاہر الحق جدید )

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها ‌المساجد ‌والسرج. رواه أبو داود والترمذي والنسائي"

(‌‌‌‌‌‌كتاب الصلاة ، باب المساجد ومواضع الصلاة ، الفصل الثاني ج: 1 ص:230 ط: المكتب الإسلامي)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري :

"أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء".

(كتاب الوضوء ، باب ما جاء في غسل البول ج: 3 ص: 121 ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وضع الورود والرياحين على القبور حسن وإن تصدق بقيمة الورد كان أحسن كذا في الغرائب.

وإخراج الشموع إلى رأس القبور في الليالي الأول بدعة، كذا في السراجية". 

(كتاب الكراهية ، الباب السابع عشر في الغناء واللهو وسائر المعاصي والأمر بالمعروف ج: 5 ص: 351 ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں