بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبروں میں انبیاء کرام کی حیات کا حکم اور منکر حیات کی امامت میں نماز ادا کرنے کا حکم


سوال

1۔کیا اہل سنت والجماعت کے ہاں نبی کریم ﷺ کو روضہ مبارکہ میں حیات برزخی حاصل ہے؟ اس حیات کا تعلق جسد عنصری کے ساتھ ہے یا جسد مثالی کے ساتھ؟

2۔ حیات النبیﷺ کے منکر (بایں معنی کہ آں حضور ﷺ کی حیاۃِ برزخی صرف  روح اطہر کو حاصل ہے، جسد اطہر عنصری کو حاصل نہیں ہے، کیوں کہ منکرینِ حیات  النبی ﷺ  کہتے ہیں کہ وہ حیات النبی ﷺ کے منکر نہیں  ہیں، لیکن جب ان سے تفصیل طلب کی جائے تو وہ حیاۃ صرف روح اطہر کے لیے مانتے ہیں نہ کہ جسد اطہر کے  لیے) کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

3۔ روضہ شریفہ کے قریب سے پڑھے ہوئے درود و سلام کو آں حضور ﷺ براہ راست سماعت فرماتے ہیں یا نہیں؟ کیا یہ مستند روایات سے ثابت ہے؟

جواب

1، 2۔اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور تمام انبیاء کرام اپنی اپنی قبروں میں حیات  ہیں اور ان کی حیات دنیاوی حیات ہی کی طرح ہے، اور اس حیات کا تعلق جسد عنصری کے ساتھ ہے اور جو شخص اس طرح  انبیاء کرام علیہم الصلوٰت والتسلیمات کی حیات کا عقیدہ نہ رکھے ایسا شخص فاسق کے حکم میں ہے اور فاسق کی امامت میں نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا ایسے شخص کی امامت میں نماز ادا کرنے سے بھی  اجتناب کیا جائے۔

3۔ واضح  رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قریب جو درود پڑھا جائے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کو سماعت فرماتے ہیں اور جو  درود دور سے پڑھائے جائے وہ آپ علیہ الصلاہ والسلام کو پہنچا دیا جاتا ہے اور یہ مضمون مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ ‌فَإِنَّ ‌صَلَاتَكُمْ ‌تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ»."

(كتاب المناسك، باب زيارة القبور، ج:2، ص:218، ط:المكتبة العصرية)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي عند ‌قبري ‌سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(كتاب الصلاة، ج:6، ص:295، ط: المكتب الاسلامي)

فتح الباری میں ہے:

"ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة رفعه وقال فيه وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم سنده صحيح وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى علي عند ‌قبري ‌سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته وعند أبي داود والنسائي وصححه بن خزيمة وغيره عن أوس بن أوس رفعه في فضل يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قالوا يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء."

(‌‌ باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، ج:6، ص:488، ط:دار المعرفة)

المہند علی المفند میں ہے:

"عندنا وعند مشائخنا : حضرۃ الرسالة صلي الله عليه وسلم حيٌّ في قبرہ الشریف وحیاتة صلي الله عليه وسلم دنیویّة من غیر تکلیفٍ، وھي مختصة بها وبجمیع الأنبیاء صلوات ﷲ علیھم والشھدآء لابرزخیَّة، کما ھي حاصلة لسائر المؤْمنین بل لجمیع الناس، نصّ علیہ العلّامة السیوطي في رسالته ’’إنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘حیث قال: قال الشیخ تقي الدین السبکي: حیاۃ الأنبیآء والشھدآء في القبر کحیاتھم في الدنیا ویشھد له صلاۃ موسٰی علیه السلام في قبرہ، فإنّ الصلاۃ تستدعي جسدًا حیًّا إلٰی اٰخر ما قال: فثبت بھذا أنّ حیاته دنیویَّة برزخیّة لکونھا في عالم البرزخ."

(المهند على المفند، ص:34، 35، ط: نفيس منزل)

فتاوی بینات میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"مسئلۂ حیات النبی کے متعلق دور حاضر کے اکابر دیوبند کا مسلک اور ان کا متفقہ اعلان:

’’ حضرت اقدس نبی کریم ﷺ اور سب انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں اکابر دیو بند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور ان کے ابدان مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور جسد عصری کے ساتھ عالم برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے اور حیات دنیوی کے مماثل ہے۔ صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور روضہ اقدس میں جو درود پڑھا جاوے بلا واسطہ سنتے ہیں ، اور یہی جمہور محدثین اور متکلمین اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے،اکابر دیوبند کے مختلف رسائل میں یہ تصریحات موجود ہیں ،حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی تو مستقل تصنیف حیات انبیاء پر "آب حیات" کے نام سے موجود ہے ۔ حضرت مولا ناخلیل احمد صاحبؒ جو حضر ت "مولانا رشید احمد گنگوہی" کے ارشد خلفاء میں سے ہیں ان کا رسالہ ”المہند علی المفند“ بھی اہل انصاف اور اہل بصیرت کے لیے کافی ہے، اب جو اس مسلک کے لیے دعوی کرے اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا اکا بر دیو بند کے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں۔"

(کتاب  العقائد، ج:1، ص:734، 735، ط:مکتبہ بینات)

وفیہ  ایضاً:

”الغرض میرا اور میرے اکابر  کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضۂ مطہرہ میں حیات جسمانی کے ساتھ حیات ہیں، یہ حیات برزخی ہے، مگر حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، جو لوگ اس مسئلہ کا انکار کرتے ہیں، ان کا اک

ابر علماء دیوبند اور اساطین امت کی تصریحات کے مطابق علماء دیوبند سے  تعلق نہیں ہے، اور میں ان کو اہلِ حق نہیں سمجھتا، اور  وہ میرے اکابر کے نزدیک گمراہ ہیں، ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں  ، اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلّق روا نہیں۔“

(کتاب  العقائد، ج:1، ص:736، ط:مکتبہ بینات)

ان مسائل سے متعلق مزید تفصیل کے لیے فتاوی بینات ج:1، "مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم "کا مطا لعہ فرمائیں۔

نوٹ: ہمارے دار الافتاء کے اصول کے مطابق 1 فتوی میں 3 سے زیادہ سوالات کے جوابات  نہیں دیے جاتے، لہٰذا  مذکورہ تین سوالت کے علاوہ بقیہ سوالات کے جوابات کے لیے نئے سِرے سے سوالات جمع کروائیں اور دار الافتاء کے اصول و ضوابط کا لحاظ رکھیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں