بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قبروں کو منہدم کر کے مسجد ومدرسہ بنانا


سوال

کیا قبروں کو منہدم کر کے اس جگہ مسجد یا مدرسہ بنانا جائز ہے؟

جواب

اگر وہ قبرستان مملوکہ زمین ہے اور اس میں قبریں اس قدر پرانی ہیں کہ میت ان میں بالکل مٹی بن گئی تو  زمین ہم وار کرنا اور وہاں مسجد، مدرسہ وغیرہ بنانا درست ہے۔  اگر میت مٹی نہیں بنی تو وہاں مسجد وغیرہ بنانا اور قبر توڑنا ناجائز ہے، ایسی حالت میں قبر کا احترام ضروری ہے۔ (ماخوذ از فتاوی محمودیہ، ۱۵ / ۳۵۳)

اور اگر چند قبریں سالم ہوں تو ان کو مسجد یا مدرسہ کے احاطہ میں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے سامنے اور پیچھے  دیوار بنا دی جائے۔  (ماخوذ از کفایت المفتی، ۷ / ۱۳۵)

اور اگر قبرستان پرانا اور وقف ہے اور اب وہاں مردے دفن نہیں ہوتے، دوسرا قبرستان موجود ہے اور اس قبرستان کے بےکار  پڑے رہنے سے اندیشہ ہے کہ اس پر دوسرے لوگ قبضہ کرلیں گے اور وہاں مسجد بنانا مناسب ہے تو مسلمانوں کے باہم مشورہ سے مسجد بنانا درست ہے۔ (فتاوی محمودیہ، ۱۵ / ۳۵۴) ان ہی شرائط کے ساتھ مدرسہ بنانا بھی درست ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4 / 179):

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرةً من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدًا لم أر بذلك بأسًا، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضًا وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد. وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكًا لأربابها، فإذا عادت ملكًا يجوز أن يبنى موضع المسجد دارًا وموضع المقبرة مسجدًا وغير ذلك، فإذا لم يكن لها أرباب تكون لبيت المال".

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144204200964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں