قبروں پر رکھے ہوئے نمک اور قبروں کے مٹی کو بطور شفا کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟
قبر پر رکھی ہوئے نمک یا قبر کی مٹی کو شفا کے لیے استعمال کرنے میں عقیدے کی خرابی کا قوی اندیشہ ہے، اور اس کی اجازت قرآن و سنت سے بھی ثابت نہیں ہے؛ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز قبر کی مٹی استعمال کرنے میں مزید خرابی یہ بھی ہے اگر وقف قبرستان ہے تو اس کی مٹی ذاتی استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اگر ذاتی قبر ہے تو مالک کی اجازت کے بغیر مٹی استعمال نہیں کی جاسکتی۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’سوال : اگرکوئی شخص بزرگوں کی قبرپرسے مٹی اٹھاکرتبرکاً اپنے پاس رکھے توجائزہے یانہیں ؟ اگرشقِ ثانی ہوتوممانعت کی وجہ کیاہے ؟ اگرشقِ اول ہے توقرآن وحدیث سے ثبوت ہوناچاہئے، اوراگرکوئی بزرگوں کے مزارسے مٹی لے بھی آوے تواس کو کیسی جگہ پر ڈالناچاہئے ؟ عام راستہ میں پھینک دینادرست ہے یانہیں ؟ ایسی صورت میں کیاحکم ہے ؟بینواتوجروا۔
الجواب حامداومصلیاً:
قبرستانِ وقف سے مٹی اٹھاکرلاناناجائز ہے ،لانه وقف، اورمملوکہ قبرستان سے مٹی اٹھاکرلانا جائزہے "لانه ملکه" البتہ تبرکاً کسی بزرگ کی قبرسے مٹی لانااوراپنے پاس رکھناامرِ محدث ہے ، میت جب خاک بن جائے توقبرکی جگہ بشرطیکہ مملوک ہوکھیتی کرنادرست ہے ، اس سے معلوم ہواکہ قبرکی مٹی کاکوئی خاص احترام شریعت نے نہیں بتایا، بلکہ میت کااحترام بتایاہے ، لہذااس مٹی کوعام راستہ میں پھینکنابھی درست ہے ،اگرعالم کسی قبرکی مٹی کوتبرکاً لاکراپنے پاس رکھے گاتوجاہل قبرکوسجدہ کرنے سےدریغ نہ کرے گا۔ لہذااجتناب كرنا چاہئے۔واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔‘‘
(فتاوی محمودیہ ، باب الجنائز ، 9/ 120 ط: فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101479
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن