بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان پر لینٹر ڈال کر مسجد بنانے کا حکم


سوال

کیا قبرستان پر لینٹر ڈال کر مسجد بنانا درست ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں!

جواب

اگر مقبرہ کسی کا مملوک ہے تو اس بارے میں اس کی اجازت ضروری ہے، اگر اس کی اجازت ہو تو اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے۔

اور اگر  وقف قبرستان ہے تو اس میں   مسجد  نہیں بنائی جاسکتی، اس لیے  کہ یہ جگہ خاص  قبرستان  کے لیے ہی وقف کی گئی ہے۔ البتہ  اگر قبریں بوسیدہ ہوچکی ہوں اور آئندہ اس میں تدفین کی ضرورت نہ ہو اور مسجد کو توسیع کی ضرورت بھی ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ مسجد یہاں تعمیر کرلی جائے، اگر کھدائی کے دوران بوسیدہ ہڈیاں وغیرہ نکلیں تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کہیں دفنا دیا جائے۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".

 (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد".

(عمدة القاري شرح صحیح البخاري / باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں