"جامع مسجد غازی کوٹ "عرصہ قدیم سے قائم شدہ مسجد ہے ،جہاں تمام نمازوں میں نمازیوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہوتی ہے۔ مسجد کا موجودہ رقبہ آبادی کے اعتبار سے توسیع کا متقاضی ہے، مسجد کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس کے محراب کی طرف کمرشل مارکیٹ ہے ، بائیں جانب مین قراقرم ہائی وے ہے اور بقایا دونوں اطراف میں قبرستان ہے، مسجد کی مغربی طرف کے قبرستان کی کچھ قبریں( جدید/ پختہ) ہیں یعنی پچھلے بیس تیس سال کے عرصے میں بنائی گئی ہیں جبکہ باقی قبرستان قدیم ہے۔
کیا مذکورہ قبرستان میں یعنی مسجد کی مغربی جانب ستون کھڑے کر کے اس پر چھت ڈال کر اس چھت پر مسجد کی توسیع کی جا سکتی ہے؟ کیا اس توسیع میں کوئی شرعی امر مانع ہے؟
کیا قبرستان میں ستون لگا کر توسیع کردہ مسجد میں جبکہ قبریں اپنی حالت میں چھت کے نیچے موجود ہوں نماز ادا کرنا درست ہے؟
۱۔صورت مسئولہ میں مذکورہ قبرستان اگر کسی کا مملوک ہے تو اس قبرستان میں مسجد کی توسیع کیلئے اس کے مالک کی اجازت ضروری ہے، اگر اس کی اجازت ہو تو اس جگہ مسجد کی توسیع کرنا جائز ہے، اور اگر وقف قبرستان ہے تو اس میں مسجد نہیں بنائی جاسکتی، اس لیے کہ یہ جگہ خاص قبرستان کے لیے ہی وقف کی گئی ہے۔ البتہ اگر قبریں بوسیدہ ہوچکی ہوں اور آئندہ اس میں تدفین کی ضرورت نہ ہو اور مسجد کو توسیع کی ضرورت بھی ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ مسجد یہاں تعمیر کرلی جائے، اگر کھدائی کے دوران بوسیدہ ہڈیاں وغیرہ نکلیں تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کہیں دفنا دیا جائے۔
۲۔نیز قبروں کے اپنی حالت میں موجو د ہونے کی صورت میں وہاں نماز اد ا کرنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت آئی ہے، اسی وجہ سے کسی حائل کے بغیر قبروں کے سامنے نماز پڑھنا (اگر قبر کو سجدہ کی نیت نہ ہو) مکروہ ہے، اگر قبرستان کی خالی جگہ نماز ادا کی جارہی ہو اور سامنے قبریں نہ آتی ہوں یا سامنے قبریں تو ہوں،لیکن درمیان میں کوئی حائل (دیوار وغیرہ) ہو تو وہاں بلاکراہت نماز جائز ہے اور اگر قبر سامنے نماز ادا کی جائے اور درمیان میں کوئی حائل بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز مکروہ ہوگی، تاہم اگر پڑھ لی تو اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد".
( باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد، 4/174 ، ط:مکتبة الإدارة الطباعة المنیریة دمشق )
البحر الرائق میں ہے:
"الثامنة في وقف المسجد: أیجوز أن یبنی من غلته منارة؟ قال في الخانیة معزیاً إلی أبي بکر البلخي: إن کان ذلك من مصلحة المسجد بأن کان أسمع لهم، فلابأس به".
( کتاب الوقف، رشیدیه ج:۵ ، ص: ۲۱۵)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100151
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن