بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں کھیلنا/ پیسے جمع کر کے کرکٹ کھیلنے کا حکم اور اس کی جائز صورتیں


سوال

ہمارے یہاں قبرستان کی زمین ہے جہاں تدفین بالکل نہیں ہوتی ہے کافی دور سے قبروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو  جگہ خالی  ہے  اس  پر  کرکٹ  کھیلتے ہیں۔

1:وہاں کرکٹ کھیلنا کیسا ہے ؟

2: روپے جمع کرکے کرکٹ کھیلنا کیسا ہے ؟

3: اگر ایک آدمی پورے روپے دے ایک ٹیم کے اور خود بھی کھیلے تو کیا حکم ہے ؟

4: پیسے جمع کرکے کرکٹ کھیلنے والی جائز  صورت  بھی  بتائیں؟

جواب

1:جو زمین قبرستان  کے لیے وقف ہےکی گئی اس زمین میں کرکٹ کھیلنا جائز   نہیں ہے،اگر چہ اس جگہ فی الحال تدفین نہ ہورہی ہو۔

2:  کرکٹ کھیلنے میں  یہ شرط رکھنا کہ  ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر ٹورنامنٹ میں   جیتنے والی ٹیم کو   یہ رقم دی جائے گی، یہ  شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔

3:اگر ایک آدمی پوری ٹیم  کی طرف سے پیسے دے  اور خود وہ بھی کھیلے تو یہ صورت  بھی درست  نہیں ہے، اسی طرح اگر رقم لگانے والا خود نہ بھی کھیلے، لیکن جیتنے کی صورت میں لگائی گئی رقم سے زیادہ وصول کرتا ہو، تب بھی یہ وصول جُوا ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

4:البتہ اگر ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنے والی منتظمہ کمیٹی صرف انتظامات کی مد میں انٹری (داخلہ) فیس وصول کرے اور  انعام کے عنوان سے کوئی رقم  نہ لے  اور پھر  اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات پورے کرے  اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو صواب دید کے مطابق انعام دیں اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہوں کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقررکریں اور چاہےنقد رقم انعام میں دیں یا کوئی ٹرافی وغیرہ دیں ، چاہیں تو بالکل نہ دیں تو یہ صورت جائز ہے،اسی طرح اگر منتظمہ کمیٹی صرف اخراجات اور انتظامات کی مد میں فیس وصول کرنے کے بعد خود سے کوئی انعام نہ دے بلکہ انعامی رقم کسی ایسے تیسرے شخص  کی طرف سے دی جائے جس نے ٹیموں سے کوئی فیس وصول نہ کی ہو تو یہ بھی جائز ہے۔

واضح رہے کہ کھیل اس صورت میں جائز ہے جب ورزش کے لیے ورزش کی حد تک کھیلا جائے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن عمرو بن حزم قال: رآني النبي صلى الله عليه وسلم متكئًا على قبر فقال: لاتؤذ صاحب هذا القبر، أو لا تؤذه. رواه أحمد."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الجنائز، باب دفن الميت، الفصل الثالث، ج:1، ص:539، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ...  وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي.

وفي الرد: (قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".

(كتاب الحظر والإباحة،  ‌‌فصل في البيع، ج:6، ص:402، ط: سعید)

المحيط البرهاني میں ہے:

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام، وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لا يجوز. "

(كتاب الكراهية والاستحسان، ‌‌‌‌الفصل السابع في المسابقة، ج:5، ص:323، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں