بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں جنازہ گاہ بنانے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقہ میں ایک پرانا قبرستان ہے، تقریبا 70 یا 80سال پرانا ہے، جو کہ لوگوں نے قبرستان کےلیے خرید لیا تھا۔اب وہاں پر اس علاقہ کے علماء  کی مشورہ سے اس پر مٹی ڈال دی گئی ہے ، اس کو ہموار کردیا گیا ہے اور اس پر جناز گاہ بنا دیا گیا ہے۔کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟وہاں پر ایک غیر مقلد مولوی کہتا ہے کہ جب تک ہڈیاں نہ نکال لی ہوں اس وقت تک جناز گاہ بنانا ٹھیک نہیں،حوالہ کیساتھ جواب دے دیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اس قبرستان کی علاقہ کے لوگوں کو بالکلیہ  حاجت نہیں رہی تھی  اور لوگ اس کو تدفین کے لیے استعمال ہی نہیں کرتے تھے اور قبرستان میں موجود مدفون اجسام کے مٹی ہونے کا غالب گمان تھا تو پھر اس قبرستان کی جگہ پر جنازہ گاہ بنانا درست ہے ۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں جنازہ گاہ بنانے کے لیے ہڈیاں نکالنا ضروری نہیں ہے ،بلکہ قبروں کا نہ کھولنا ہی بہتر ہے، کیوں کہ بلا وجہ مسلمانوں کی قبروں کا کھولنا ادب کے خلاف ہے ۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"وهو جواز نبش قبور المشركين لأنه لا حرمة لهم فيستفاد منه عدم جواز نبش قبور غيرهم سواء كانت قبور الأنبياء أو قبور غيرهم من المسلمين لما فيه من الإهانة لهم، فلا يجوز ذلك، لأن حرمة المسلم لا تزول حيا وميتا."

(کتاب  الصلاۃ باب تنبش قبور المشرکی الجاہلیۃ و یتخذ مکانہا مساجد ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۷۲،دار احیاء التراث العربی)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"فَإِن قلت: هَل يجوز أَن تبنى على قُبُور الْمُسلمين؟ قلت: قَالَ ابْن الْقَاسِم: لَو أَن مَقْبرَة من مَقَابِر الْمُسلمين عفت فَبنى قوم عَلَيْهَا مَسْجِدا لم أر بذلك بَأْسا، وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَا يجوز لأحد أَن يملكهَا، فَإِذا درست وَاسْتغْنى عَن الدّفن فِيهَا جَازَ صرفهَا إِلَى الْمَسْجِد، لِأَن الْمَسْجِد أَيْضا وقف من أوقاف الْمُسلمين لَا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هَذَا وَاحِد."

(کتاب  الصلاۃ باب تنبش قبور المشرکی الجاہلیۃ و یتخذ مکانہا مساجد ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۷۹،دار احیاء التراث العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبرا في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتا؛ لا ينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره ليكون جمعا بين الحقين، كذا في خزانة المفتين وهكذا في المحيط."

(کتاب الوقف باب ثانی عشر ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۷۲،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(کتاب الصلاۃ باب الجنائز  فصل سادس ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۶۷،دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"اگر اب قبرستان کی زمین  دفن  کے کام میں نہیں آسکتی تو اسے مسجد کے کام میں لے سکتے ہیں۔"

(کتاب الوقف ج نمبر۷ ص نمبر  ۳۱،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں