کیا قبرستان میں پودا لگانا اور اس کا پھل کھانا جائزہے؟
قبرستان کی فارغ زمین پر ایسے طور پر درخت لگانا کہ اصل غرض یعنی دفن اموات میں نقصان نہ آئے جائز ہے،نیز جواز کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ درخت لگانے، ان کی حفاظت کرنے اور دیگر متعلقہ کام کرنے میں قبریں نہ روندی جائیں اور ان کی بے اکرامی نہ ہو۔یہ بھی واضح رہے کہ وقف قبرستان میں درخت لگانے سے وہ درخت بھی وقف ہو جائیں گے،ان درختوں کے پھلوں کی بیع جائز ہوگی اور قیمت کو قبرستان کے کام میں لایا جائے گا،جب کہ عامۃ الناس بھی یہ پھل کھا سکتے ہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"للمستأجر غرس الشجر بلا إذن الناظر، إذا لم يضر بالأرض.
(قوله: للمستأجر غرس الشجر إلخ) كذا في الوهبانية، وأصله في القنية: يجوز للمستأجر غرس الأشجار والكروم في الأراضي الموقوفة، إذا لم يضر بالأرض بدون صريح الإذن من المتولي، دون حفر الحياض."
(کتاب الوقف، ج نمبر ۳ ،ص نمبر ۴۵۴،ایچ ایم سعید)
کفایت المفتی میں ہے:
"(جواب 115)مقبرہ کی فارغ زمین میں ایسے طور پر درخت لگانا کہ اصل غرض یعنی دفن اموات میں نقصان نہ آئے جائز ہے۔ان درختوں کے پھلوں کی بیع جائز ہوگی اور پھلوں کی قیمت قبرستان کے کام میں لائی جائے گی ،جواز کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ درخت لگانے ،ان کی حفاظت کرنے پھلوں کے توڑنے اور اس کے متعلقہ کاموں میں قبروں کا روندا جانا نہ پایا جائے۔"
(ج7،ص120-121،ط:دار الاشاعت)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"(الجواب 1040)اگر قبرستان وقف ہے تو وه درخت بھی وقف ہوگئے،كسی كو ان كا كاٹنا يا لينا درست نہيں ."
(وقف کا بیان، قبرستان کے احکام،ص180،ج14،ط:دار الاشاعت)
وفيه ايضاّ:
"الجواب(1042) قاعدہ یہ ہے کہ جو زمین جس کام کے لیے وقف ہوتی ہے ،اس کو اس کام میں لانا چاہیے،پس جو زمین قبرستان بنائی گئی،اور عام مسلمانوں کے دفن کے لیے وقف کی گئی ،اس میں اس طرح درخت لگانا کہ قبروں کی جگہ مشغول ہو جائے درست نہیں،البتہ اگرواقف کی طرف سے اس کی اجازت صراحۃً یا دلالۃ ً ہو تو جائز ہے اور جس صورت میں کہ ایک ایسے کنارہ پر درخت لگایا جائے کہ اس سے قبروں کی زمین میں تنگی نہ ہو تو یہ درست ہے اور جس صورت میں درست ہے اس صورت میں اس کاپھل عام لوگ کھا سکتے ہیں ،درمختار میں ہے:"غرس في المسجد أشجارا تثمر إن غرس للسبيل فلكل مسلم الاكل، و إلا فتباع لمصالح المسجد ... (قوله: إن غرس للسبيل) و هو الوقف على العامة. (كتاب الوقف، فروع مهمة، ج4، ص432، ط: سعید)."
(ص181،ج14،ط:دار الاشاعت)
امداد الاحکام میں ہے:
’’ سوال: اگر کسی قبر پر خودروگھاس یا درخت ہے، تو اس گھاس اور درخت کو قطع کرنا اور کسی استعمال میں لگانا، ایسا ہی کوئی پھل دار درخت ہوتو اس کا پھل کھانا کیسا ہے؟
جواب: گھاس کا کاٹنا تو جائز ہے، مگر بلاضرورتِ شدیدہ گھاس کاٹنا اچھا نہیں، اور ضرورت میں کچھ حرج نہیں، البتہ درخت کاٹنے میں تفصیل ہے۔ اوّل یہ بتلایا جائے کہ قبرستان وقف ہے یا مملوک؟ اور وقف ہے تو متولی کوئی ہے یا نہیں؟ اور متولی نہیں ہے تو اب تک اس قبرستان کے درخت وغیرہ کس طرح صرف ہوتے رہے؟ اور بعد وجود شرائط حل قطع محض قبر پر درخت کا ہونا حلِ قطع سے مانع نہیں۔ اسی طرح پھل دار درخت کا پھل قاعدہ شرعیہ سے توڑا جائے تو محض قبر پر درخت ہونے سے اس کے پھل میں کچھ خرابی نہیں آتی۔
"قال في الشرنبلالیة: و کرہ قلع الحشیش الرطب و كذا الشجرۃ من المقبرۃ؛ لأنه مادم رطبًا یسبحّ اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت و تنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمة و لابأس بقلع الیابس منهما اهـ . قال الطحطاوی تحت قوله: لأنه مادم رطبًا الخ و من هذا قالوا: لایستحب قطع الحشیش الرطب مطلقًا ای ولو من غیر جنایة (وھي مقبرۃ) من غیرحاجة، أفادہ فی الشرح عن قاضي خان اھ(ص/346) واللہ اعلم"
حررہ الاحقر ظفراحمد عفا عنہ : ازخانقاہ امدادیہ، ۶؍رجب ۱۳۴۵ھ
(احکام المقابر، قبر پر خورد رُو گھاس یا درخت کاٹنااور پھل دار درخت کا پھل کھانا کیسا ہے، ج:3، ص:283، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101539
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن