ایک شخص نے ایک جگہ مسجد اور قبرستان کے لیے وقف کی ہے، جگہ نشیبی ہے، تقریباً 12-13 فٹ، سیلابی علاقہ بھی ہے، واقف کا ارادہ ہے کہ قبرستان والی جگہ پر پہلے نیچے کنکریٹ کیا جائے، اوپر نرم مٹی سے بھرائی کر دی جائے، پھر اس میں قبرستان بنا کر کنکریٹ کے اوپر نرم مٹی میں مردوں کو دفن کیا جائے۔
پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ کنکریٹ کرنا پختہ قبر کی ممانعت میں تو داخل نہیں ہو گا؟اس طرح کرنا درست ہے؟
حدیث شریف میں قبر کو پکا کرنے کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ زمین میں قبر کو رکھا جاتا ہے اس کو پختہ نہ بنایا جائے، باقی اگر پانی سے بچانے کے لیے زمین کے نچلے حصے میں کنکریٹ ڈالی جائے تو یہ ممانعت میں داخل نہیں ہو گا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر نشیبی زمین اور سیلابی علاقہ ہونے کی بناء پر اس کو نیچے سے کنکریٹ کر کے اوپر نرم مٹی سے بھرائی کر دے؛ تا کہ زمین کی سطح برابر ہو جائے اور پانی کے جمع ہونے کا خطرہ نہ رہے تو اس کی اجازت ہو گی، ایسا کرنا شرعاً منع نہیں ہو گا۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن جابر قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبور، وأن يكتب عليها، وأن توطأ» . رواه الترمذي.
(وعن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص) بالتذكير وتؤنث. (القبور) قيل: لعل ورود النهي لأنه نوع زينة."
(کتاب الجنائز ، باب دفن المیت ، جلد : 3 ، صفحه : 1223 ، طبع : دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: ولا بأس باتخاذ تابوت إلخ) أي يرخص ذلك عند الحاجة، وإلا كره كما قدمناه آنفا.
قال في الحلية نقل غير واحد عن الإمام ابن الفضل أنه جوزه في أراضيهم لرخاوتها: وقال: لكن ينبغي أن يفرش فيه التراب، وتطين الطبقة العليا مما يلي الميت، ويجعل اللبن الخفيف على يمين الميت ويساره ليصير بمنزلة اللحد."
(کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة ، مطلب في دفن الميت ، جلد : 2 ، صفحه : 235 ، طبع : سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وحكي عن الشيخ الإمام أبي بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - أنه جوز اتخاذ التابوت في بلادنا لرخاوة الأرض قال: ولو اتخذ تابوت من حديد لا بأس به لكن ينبغي أن يفرش فيه التراب ويطين الطبقة العليا مما يلي الميت ويجعل اللبن الخفيف على يمين الميت وعلى يساره ليصير بمنزلة اللحد ويكره الآجر في اللحد إذا كان يلي الميت، كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الصلاة ، الباب الحادي والعشرون ، الفصل السادس ، جلد : 1 ، صفحه : 166 ، طبع : دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144605101068
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن