اہل محلہ قبرستان کے لیے ایک جگہ خریدتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اہل محلہ میں سے ہر بندے سے پانچ ہزار روپے لیے جاتے ہیں اور اس میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ بندہ خود، اس کے والدین اور غیر شادی شدہ اولاد اس قبرستان میں دفن ہوں گے، اب صورت یہ بنتی ہے کہ اس قبرستان میں کسی کے زیادہ افراد دفن ہوتے ہیں اور کسی کے کم، حالانکہ پیسے سب نے برابر دیے ہوتے ہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو ٹھیک، اگر نہیں تو پھر کیا جائز صورت ہو سکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں محلے والوں کا قبرستان کے لیے جگہ خریدنے کے لیے اہلِ محلہ میں سے ہر شخص سے پانچ ہزار روپے لینا اور یہ معاہدہ کرنا کہ پانچ ہزار دینے والے شخص کو اور اس کے والدین کو اور اس کی غیر شادی شدہ اولاد کو قبرستان میں دفن کیے جانے کا حق ملے گا، یہ طریقہ "غرر" پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مذکورہ طریقہ کے مطابق یہ تو طے ہے کہ ہر شخص پانچ ہزار روپے ادا کرے گا لیکن اس پانچ ہزار روپے کے عوض اس کی اولاد میں سے کتنے افراد کو قبرستان میں تدفین کا حق ملے گا یہ متعین نہیں ہے، بلکہ اس میں ہر شخص کے اعتبار سے بہت زیادہ تفاوت کا امکان ہے، اس لیے کہ ممکن ہے کسی کے مثلا پانچ بچوں کو غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے تدفین کا حق ملے اور کسی کے تمام بچوں کے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ایک بھی بچے کو تدفین کا حق نہ ملے۔
اس کا جائز طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پانچ ہزار دینے کے عوض اس شخص کے خاندان کے افراد کی ایک متعین تعداد کو طے کرلیا جائے، مثلا یوں معاملہ کیا جائے کہ جو شخص پانچ ہزار روپے دے گا اس سمیت اس کے خاندان میں سے مثلا پانچ افراد (خواہ بچے ہوں یا بڑے، شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ) کو اس قبرستان میں تدفین کا حق ملے گا۔
صحیح مسلم شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»."
(كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة والبيع الذي فيه غرر، ج:3، ص: 1153، رقم: 1513، ط: مطبعة البابي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"الغرر هو الخطر الذي استوى فيه طرف الوجود والعدم بمنزلة الشك."
(كتاب البیوع،فصل في شرائط الصحة في البیوع، ج:11، ص:186، ط:بیروت)
فتح القدير للكمال بن الهمام میں ہے:
"قال (وضربة القانص) وهو ما يخرج من الصيد بضرب الشبكة مرة لأنه مجهول ولأن فيه غررا.
(قوله وضربة القانص) بالرفع والجر على قياس ما تقدمه (وهو) الصائد يقول بعتك (ما يخرج من) إلقاء هذه (الشبكة مرة) بكذا. وقيل بالغين والياء الغايص. قال في تهذيب الأزهري: نهى عن ضربة الغائص وهو الغواص يقول أغوص غوصة فما أخرجه من اللآلئ فهو لك بكذا فهو بيع باطل لعدم ملك البائع المبيع قبل العقد فكان غررا ولجهالة ما يخرج."
(كتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:6، ص:414، ط:دار الفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100021
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن