بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان جاکر ایصال ثواب کا طریقہ اور میت کا قبر پر آنے والے کو پہچاننا


سوال

جب قبرستان جائیں تو مردوں کو ایصالِ ثواب کیسے کریں؟ اور کیا ان کو پتا چلتا ہے  کہ  ان کے پاس ہم آئے ہیں؟

جواب

 ایصالِ ثواب کے لیے قبر پر یا غائبانہ طور پر  دونوں طرح قرآنِ کریم پڑھنا جائز ہے اور اس کا  ثواب مردے کو پہنچتا ہے،  ایصالِ ثواب کا  کوئی مخصوص طریقہ یا خاص طور پر قبر پر جاکر پڑھنے کا التزام بھی  ثابت نہیں ہے،   قبرستان جاکر ایصال ثواب کرنے کے لیے بہترطریقہ قبر کے پاس پہنچ کر اس کی پاؤں کی  طرف  سے آکر قبر کی طرف منہ کرکے یہ دعاء پڑھیں:

’’ السلام عليكم يا أهل القبور و يغفر الله لنا ولكم أنتم لنا سلف ونحن بالأثر ‘‘

یا یہ دعا پڑھ لی جائے:

«السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا - إن شاء الله- بكم لاحقون، ونسأل الله لنا ولكم العافية» 

پھر وہاں کھڑے ہوکر میت کے لیے دعا کرے اور سورۂ فاتحہ، سورۂ یاسین، سورۂ زلزال،  سورۂ تکاثر اور سورۂ اخلاص  پڑھ کر اس کے لیے  ایصال ثواب کرنا بہتر ہے، تاہم کوئی بھی سورت یا آیت پڑھنے میں حرج نہیں ، حسبِ توفیق  جو تلاوت و اذکار چاہے  ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔  اور دعا مانگنی ہو تو قبلہ رخ ہوکر دعا مانگی جائے۔

۲۔۔  میت کو  ایصالِ ثواب کرنے سے  فائدہ  پہنچتا ہے، اور اس سے وہ خوش بھی ہوتے ہیں اور وہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، اور زیارت کے لیے آنے والے کو اگر وہ دنیا میں پہچانتے ہوں تو  قبر پر آنے پر بھی اس کو پہچانتے ہیں، اور انسیت حاصل کرتے ہیں،  اس لیے اپنے اعزّہ کی قبر  اور قبرستان میں جہاں عبرت اور آخرت کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانا چاہیے، اسی طرح ان کے ایصالِ ثواب اور رشتہ داری کا حق ادا کرنے کے لیے بھی جانا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 242):

وبزيارة القبور ولو للنساء لحديث «كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها» ويقول: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون۔ويقرأ يس،

(قوله ويقول إلخ) قال في الفتح: والسنة زيارتها قائما، والدعاء عندها قائما، كما «كان يفعله - صلى الله عليه وسلم - في الخروج إلى البقيع ويقول: السلام عليكم» إلخ.
وفي شرح اللباب للمنلا على القارئ: ثم من آداب الزيارة ما قالوا، من أنه يأتي الزائر من قبل رجلي المتوفى لا من قبل رأسه لأنه أتعب لبصر الميت، بخلاف الأول لأنه يكون مقابل بصره، لكن هذا إذا أمكنه وإلا فقد ثبت «أنه عليه الصلاة والسلام قرأ أول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه» ومن آدابها أن يسلم بلفظ: السلام عليكم على الصحيح، لا عليكم السلام فإنه ورد: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا -إن شاء الله - بكم لاحقون، ونسأل الله لنا ولكم العافية» ثم يدعو قائما طويلا، وإن جلس يجلس بعيدا أو قريبا بحسب مرتبته في حال حياته. اهـ. قال ط: ولفظ الدار مقحم، أو هو من ذكر اللازم لأنه إذا سلم على الدار فأولى ساكنها، وذكر المشيئة للتبرك لأن اللحوق محقق، أو المراد اللحوق على أتم الحالات فتصح المشيئة.

شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 201):

" 1- أخرج إِبْنِ أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور عَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا قَالَت: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: مَا من رجل يزور قبر أَخِيه وَيجْلس عِنْده إِلَّا إستأنس ورد عَلَيْهِ حَتَّى يقوم.
2 - وَأخرج أَيْضًا وَالْبَيْهَقِيّ فِي الشّعب عَن أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ قَالَ: إِذا مر الرجل بِقَبْر يعرفهُ فَسلم عَلَيْهِ، رد عَلَيْهِ السَّلَام وعرفه، وَإِذا مر بِقَبْر لَايعرفهُ فَسلم عَلَيْهِ، رد عَلَيْهِ السَّلَام.
3 - وَأخرج إِبْنِ عبد الْبر فِي الإستذكار والتمهيد عَن إِبْنِ عَبَّاس رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: مَا من أحد يمر بِقَبْر أَخِيه الْمُؤمن كَانَ يعرفهُ فِي الدُّنْيَا فَيسلم عَلَيْهِ إِلَّا عرفه ورد عَلَيْهِ السَّلَام. صَححهُ عبد الْحق.
4 - وَأخرج إِبْنِ أبي الدُّنْيَا فِي الْقُبُور والصابوني فِي الْمِائَتَيْنِ عَن أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: مَا من عبد يمر على قبر رجل يعرفهُ فِي الدُّنْيَا فَيسلم عَلَيْهِ إِلَّا عرفه ورد عَلَيْهِ السَّلَام.
5 - وَأخرج الْعقيلِيّ عَن أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ أَبُو رزين: يَا رَسُول الله! إِن طريقي على الْمَوْتَى، فَهَل من كَلَام أَتكَلّم بِهِ إِذا مَرَرْت عَلَيْهِم؟ قَالَ: قل: "السَّلَام عَلَيْكُم يَا أهل الْقُبُور من الْمُسلمين وَالْمُؤمنِينَ، أَنْتُم لنا سلف وَنحن لكم تبع، وَإِنَّا إِن شَاءَ الله بكم لاحقون". قَالَ أَبُو رزين: يَا رَسُول الله! يسمعُونَ؟ قَالَ: يسمعُونَ، وَلَكِن لَايستطيون أَن يجيبوا. قَالَ: يَا أَبَا رزين! أَلا ترْضى أَن يرد عَلَيْك بعددهم من الْمَلَائِكَة!

"قَوْله: لَايَسْتَطِيعُونَ أَن يجيبوا": أَي جَوَابًا يسمعهُ الْجِنّ وَالْإِنْس، فهم يردون حَيْثُ لَايسمع".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں