بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کے لیے زبانی طور پر زمین وقف کرنے سے وقف کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں قبرستان کے لیے اراضی زبانی طور پہ وقف کرتا ہے، اس کے فوت ہونے کے بعد کیا وہ اراضی وقف ہی رہے گی؟ یا متوفی کی اولاد اراضی کلیم کرنے کی حق دار ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  زمین کو زبانی طور پر وقف کردینے سے یا متولیّ کے سپرد کردینے سے وقف ہوجائے گی،جس کے بعد وہ واقف کی ملک سے نکل کر ملکِ باری تعالیٰ میں چلی جاتی ہے ، وقف صحیح ہونے کے بعد اس زمین کو  جس مقصد کے لیے واقف نے وقف کیا تھا ، اس مقصد میں صرف کرنا ضروری ہے،بعد ازاں  اس زمین کو وقف شدہ مقصدکے خلاف استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا اور متوفی کی اولاد کو اس میں سے کسی قسم کے مطالبہ کا حق نہیں، ایسی موقوفہ زمین متوفی کے ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(ولا يتم) الوقف (حتى يقبض) لم يقل للمتولي لأن تسليم كل شيء بما يليق به ففي المسجد بالإفراز وفي غيره بنصب المتولي وبتسليمه إياه ابن كمال (ويفرز) فلا يجوز وقف مشاع يقسم خلافا للثاني (ويجعل آخره لجهة) قربة (لا تنقطع) هذا بيان شرائطه الخاصة على قول محمد،لأنه كالصدقة، وجعله أبو يوسف كالإعتاق واختلف الترجيح، والأخذ بقول الثاني أحوط وأسهل بحر وفي الدرر وصدر الشريعة وبه يفتى وأقره المصنف.

(قوله: واختلف الترجيح) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين".

(کتاب الوقف،مطلب مهم فرق ابویوسف بین قوله موقوفة الخ، ج:4، ص:351، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144307102526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں