بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کے پھلوں/ درختوں اور گھاس کے کاٹنے کا حکم


سوال

قبرستان کے درختوں کےپھل اور لکڑی اور گھاس وغیرہ کو کاٹ کر ذاتی ضرورت میں استعمال کرنا یا  مسجد کی تعمیر اور ضرورت میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

قبرستان کے پھلوں کا حکم:

صورتِ مسئولہ  میں اگر قبرستان کی زمین موقوفہ ہے تو اس قبرستان میں موجود درختوں کے پھلوں کو فروخت کرکے اس کی قیمت قبرستان کی ضروریات میں صرف کرنا ضروری ہے اس کو ذاتی ضرورت میں استعمال کرنا یا اس کے علاوہ کسی اور مصرف میں استعمال کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر قبرستان کی زمین مملوکہ زمین ہے، تو اس میں موجود درختوں کے پھل مذکورہ زمین کے مالک کے ہوں گے، اور وہ اس کو استعمال کرسکتا ہے۔(1)

قبرستان کے درختوں کا حکم:

قبرستان کی زمین اگر مملوکہ زمین ہے تو اس کے درخت خواہ لگائے گئے ہوں یا خود اگے ہوں وہ درخت اس زمین کے مالک کی ملکیت میں ہیں، اس کو قبرستان میں موجود زائد درخت یعنی ایسے درخت جن سے مقبرہ کو نقصان پہنچے ،کاٹناجائز ہے،  اور اگر قبرستان کی زمین مملوکہ نہیں ہے بلکہ وقف ہے اور درخت زمین کے وقف ہونے کی حالت میں خوداُگے ہوں، تو اہل مقبرہ اس میں تصرف کرنے کے مجاز ہیں،اگر قبرستان میں ضرورت ہے تو اس کو قبرستان کی ضروریات میں صرف کرنا ضروری ہے، اگر قبرستان میں ضرورت نہیں ہے، تو مسجد کی ضرورت میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔(2)

قبرستان کی گھاس کا حکم: 

اگر قبرستان میں ضرورت سے زائد گھاس  اُگ گئی ہو اور اس کسی معقول عذر کی بنا پر کاٹنے کی حاجت ہو تو اُس کو کاٹا جا سکتا ہے، پھر اگر وہ قبرستان موقوفہ ہے تو اس کی قیمت کا مصرف وہی قبرستان ہے، یعنی اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اُسی قبرستان کے مصارف میں خرچ کرنا چاہیے اور اگر قبرستان میں خرچ کرنے کی حاجت نہ ہو تو اس کو مسجد میں خرچ کیا جا سکتا ہے،اور اگر وہ قبرستان کسی کی ذاتی ملکیت ہو تو مالک کی اجازت اور حکم سے اس کی رقم کو مسجد میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔(3)

حوالہ جات:

1: فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"سئل نجم الدين عن رجل غرس تالة في مسجد فكبرت بعد سنين فأراد متولي المسجد أن يصرف هذه الشجرة إلى عمارة بئر في هذه السكة والغارس يقول: هي لي فإني ما وقفتها على المسجد، قال: الظاهر أن الغارس جعلها للمسجد فلا يجوز صرفها إلى البئر ولا يجوز للغارس صرفها إلى حاجة نفسه، كذا في المحيط."

(کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، القبر والدفن، ج:5، ص:876، ط:ادارۃ القرآن)

2: فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"مقبرة عليها أشجار عظيمة فهذا على وجهين: إما إن كانت الأشجار نابتة قبل اتخاذ الأرض أو نبتت بعداتخاذ الأرض مقبرة. ففي الوجه الأول المسألة على قسمين: إما إن كانت الأرض مملوكة لها مالك، أو كانت مواتا لا مالك لها واتخذها أهل القرية مقبرة، ففي القسم الأول الأشجار بأصلها على ملك رب الأرض يصنع بالأشجار وأصلها ما شاء، وفي القسم الثاني الأشجار بأصلها على حالها القديم. وفي الوجه الثاني المسألة على قسمين: إما إن علم لها غارس أو لم يعلم، ففي القسم الأول كانت للغارس، وفي القسم الثاني الحكم في ذلك إلى القاضي إن رأى بيعها وصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك، كذا في الواقعات الحسامية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض، ج:2، ص:473، ط: رشیدیة)

وفيه أيضا:

"سئل نجم الدين في مقبرة فيها أشجار هل يجوز صرفها إلى عمارة المسجد؟ قال: نعم، إن لم تكن وقفا على وجه آخر قيل له: فإن تداعت حيطان المقبرة إلى خراب يصرف إليها أو إلى المسجد قال: إلى ما هي وقف عليه إن عرف وإن لم يكن للمسجد متول ولا للمقبرة فليس للعامة التصرف فيها بدون إذن القاضي، كذا في الظهيرية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض، ج:2، ص:476، ط:رشیدیة)

3: امداد الاحکام میں ہے:

’’ سوال: اگر کسی قبر پر خودروگھاس یا درخت ہے، تو اس گھاس اور درخت کو قطع کرنا اور کسی استعمال میں لگانا، ایسا ہی کوئی پھل دار درخت ہوتو اس کا پھل کھانا کیسا ہے؟

جواب: گھاس کا کاٹنا تو جائز ہے، مگر بلاضرورتِ شدیدہ گھاس کاٹنا اچھا نہیں، اور ضرورت میں کچھ حرج نہیں، البتہ درخت کاٹنے میں تفصیل ہے۔ اوّل یہ بتلایا جائے کہ قبرستان وقف ہے یا مملوک؟ اور وقف ہے تو متولی کوئی ہے یا نہیں؟ اور متولی نہیں ہے تو اب تک اس قبرستان کے درخت وغیرہ کس طرح صرف ہوتے رہے؟ اور بعد وجود شرائط حل قطع محض قبر پر درخت کا ہونا حلِ قطع سے مانع نہیں۔ اسی طرح پھل دار درخت کا پھل قاعدہ شرعیہ سے توڑا جائے تو محض قبر پر درخت ہونے سے اس کے پھل میں کچھ خرابی نہیں آتی۔

"قال فی الشرنبلالیة: وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجرۃ من المقبرۃ لأنه مادم رطبًا یسبحّ اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت وتنزل بذکراللّٰہ تعالیٰ الرحمة ولابأس بقلع الیابس منهما اھ۔ قال الطحطاوی تحت قوله لأنه مادم رطبًا الخ۔ ومن ھذا قالوا لایستحب قطع الحشیش الرطب مطلقًا ای ولو من غیر جنایة (وھي مقبرۃ) من غیرحاجة، أفادہ فی الشرح عن قاضي خان اھ(ص/346) واللہ اعلم"

حررہ الاحقر ظفراحمد عفا عنہ : ازخانقاہ امدادیہ، ۶؍رجب ۱۳۴۵ھ 

(احکام المقابر، قبر پر خورد رُو گھاس یا درخت کاٹنااور پھل دار درخت کا پھل کھانا کیسا ہے، ج:3، ص:283، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں