بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر ریکارڈنگ کے ذریعے قرآن کا ایصالِ ثواب کرنے کا حکم


سوال

ایصالِ ثواب  کی نیت  سے  ریکارڈنگ  کے  ذریعے قبر پر  قرآن  پڑھنا کیسا  ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ریکارڈنگ کے ذریعے قرآنِ کریم  کی جو تلاوت سنی جاتی ہے، اس کے ساتھ اگرچہ تلاوت کے کچھ اَحکام ( مثلًا اس کے سننے پر ثواب کا ملنا) اور  آداب ( مثلًا اس  وقت خاموش ہونا) وابستہ ہوتے ہیں، تاہم اس کو  تلاوت کے قائم مقام بناکر اس کا ایصالِ ثواب نہیں کیا جاسکتا ؛  کیوں کہ تلاوت کے ثواب کے ایصال کے  لیے تلاوت کا صحیح  و معتبر ہونا ضروری ہے، یعنی تلاوت کرنے والا تلاوت کرنے کی اہلیت  رکھنے کے  ساتھ  ساتھ   ذی  شعور   متمیز  بھی ہو،  اور ظاہر سی بات ہے کہ ٹیپ میں نہ تلاوت کرنے کی اہلیت ہے اور نہ ہی وہ ذی شعور ہے۔

نیز  ریکارڈ شدہ تلاوت کو سننے سے زندہ شخص کو ثواب ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ وہ  اس وقت مکلّف ہے اور دار التکلیف  (دنیا) میں  ہونے  کی   وجہ سے اس کے اعمال معتبر ہیں، لہٰذا جب وہ تلاوت   سنے گا، خواہ وہ ریکارڈ شدہ تلاوت ہو،  اس کے دل میں قرآن کی عظمت پیدا  ہوگی،  نیز اگر وہ قرآنِ پاک کا ترجمہ جانتا ہے تو آیات سن کر ان کے مضامین میں غور  و فکر کرے گا، اور یہ سب اعمال زندہ کے حق میں نیکیاں ہیں، جب کہ  مردہ شخص مکلف نہیں ہے، اور وہ  جہاں  ہے وہ دار التکلیف نہیں ہے، بلکہ "دار الجزاء" ہے؛ لہٰذا مردے کے سننے کے باوجود اسے ثواب نہیں ہوسکتا، لہذا محض قبر پر ٹیپ رکارڈنگ لگاکر تلاوت کا ایصال ِ ثواب کرنا درست نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"فينظر إلى أهلية التالي وأهليته بالتمييز وقد وجد فوجد سماع تلاوة صحيحة فتجب السجدة بخلاف السماع من الببغاء والصدى فإن ذلك ليس بتلاوة وكذا إذا سمع من المجنون؛ لأن ذلك ليس بتلاوة صحيحة لعدم أهليته لانعدام التمييز." 

(كتاب الصلوة، فصل سجدة التلاوة، ج:1، ص:186، ط:دارالكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال النووي: أما وضعهما على القبر فقيل إنه عليه الصلاة والسلام سأل الشفاعة لهما فأجيب: بالتخفيف إلى أن ييبسا، وقد ذكر مسلم في آخر الكتاب في حديث جابر أن صاحبي القبرين أجيبت شفاعتي فيهما أي: برفع ذلك عنهما ما دام القضيبان رطبين، وقيل: إنه كان يدعو لهما في تلك المدة وقيل لأنهما يسبحان ما داما رطبين قال كثير من المفسرين في قوله تعالى {وإن من شيء إلا يسبح بحمده} [الإسراء: 44] معناه أن من شيء حي ثم قال: وحياة كل شيء بحسبه، فحياة الخشب ما لم ييبس، والحجر ما لم يقطع والمحققون على العموم، وأن التسبيح على حقيقته لأن المراد الدلالة على الصانع واستحب العلماء قراءة القرآن عند القبر لهذا الحديث إذ تلاوة القرآن أولى بالتخفيف من تسبيح الجريد، وقد ذكر البخاري أن بريدة بن الحصيب الصحابي أوصى أن يجعل في قبره جريدتان، فكأنه تبرك بفعل مثل رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، وقد أنكر الخطابي ما يفعله الناس على القبور من الأخواص ونحوها بهذا الحديث وقال: لا أصل له. وفي الحديث إثبات عذاب القبر كما هو مذهب أهل الحق، وفيه نجاسة الأبوال، وفيه تحريم النميمة، لا سيما مع قوله كان فإنه يدل على الاستمرار، وفيه أن عدم التنزه من البول يبطل الصلاة وتركها كبيرة بلا شك اهـ.

قيل: وفيه تخفيف عذاب القبر بزيارة الصالحين ووصول بركتهم، وأما إنكار الخطابي وقوله: " لا أصل له " ففيه بحث واضح، إذ هذا الحديث يصلح أن يكون أصلا له، ثم رأيت ابن حجر صرح به وقال قوله: " لا أصل له " ممنوع، بل هذا الحديث أصل أصيل له، ومن ثم أفتى بعض الأئمة من متأخري أصحابنا بأن ما اعتيد من وضع الريحان والجريد سنة لهذا الحديث اهـ. ولعل وجه كلام الخطابي أن هذا الحديث واقعة حال خاص لا يفيد العموم، ولهذا وجه له التوجيهات السابقة فتدبر فإنه محل نظر".

(کتاب الطهارۃ، باب آداب الخلاء، ج:1، ص:376، ط:دارالفکر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208200977

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں