میرے والدین کی قبریں چچا زاد بھائیوں کی زمین میں ہے اور زمین کا تنازعہ چل رہا ہے اور عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کل کو ان کے بارے میں فیصلہ ہو جائے تو وہ اس پر اعتراض کریں گے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ہی ان کی قبر کو دوسری زمین میں منتقل کر دیں آج کل چائنہ کی مشین آئی ہوئی ہے جو آٹھ دس فٹ ایک ساتھ گہرائی میں زمین کھودتی ہے اور دوسری جگہ رکھ دیتی ہے۔ اس کی قبر کشائی بھی نہیں ہوتی اور بے حرمتی بھی نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ تدفین کے بعد میت کی منتقلی کی اجازت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ اس جگہ، یا کفن، یا اس قبر کے ساتھ کسی کا حق بایں طور ثابت ہوجائے کہ قبر کی زمین غصب شدہ ہو، یا کفن غصب شدہ ہو یا تدفین کے دوران قبر میں نقدی یا کوئی سامان گرجائے، اور مالک اپنے حق سے دست بردار ہونے تیار نہ ہو، بصورتِ دیگر میت کی منتقلی جائز نہیں ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں جب عدالت کا فیصلہ چچا زاد بھائیوں کے حق میں آجائے اور چچا زاد بھائی میت منتقل کرنے کا کہیں تو ایسی صورت میں میت کی منتقلی جائز ہوگی۔اور اس صورت میں مذکورہ مشین کو استعمال کرنا بشرطیکہ میت کوکوئی گزند نہ پہنچے اور پوری قبر ہی منتقل ہو جائے تو یہ جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.
(2/238 کتاب الجنائز ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘.
(4/486 ، کتاب الجنائز ط: سعید)
وفیه أیضاً:
’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط‘‘.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100418
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن