بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے سرہانے اور پیر کی طرف سورۂ بقرہ اول وآخر پڑھنے کے ساتھ قبرپر انگلی رکھنا؟


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

" میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر انگلی رکھ کر سورہ بقرہ کے اول وآخر حصہ کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ہے؟

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی ویب سائٹ پر موجود مندرجہ ذیل فتویٰ سے معلوم ہوتا ہے ہوتا ہے کہ " انگلی رکھنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بعض صحابہ نے انگلی رکھ کر پڑھنے کی وصیت بھی فرمائی ہے"۔

فتویٰ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"واضح رہے کہ قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کا اول رکوع پڑھنا اور پیر کی جانب آخری رکوع پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے، البتہ انگشتِ شہادت کا مٹی میں رکھنا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشایخ ہے، اور بعض صحابہ نے اس کی وصیت فرمائی تھی؛ لہٰذا انگشت کو قبر کے سرہانے رکھنا نہ رکھنا دونوں جائز ہے، کسی ایک صورت پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔"

اس فتویٰ کے آخر میں فتاوی محمودیہ کا حوالہ دیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں:

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سورتِ بقرہ کا اول آخر پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، انگشتِ شہادت مٹی میں رکھنا ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشائخ ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں مضائقہ نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس سے سوال وجواب میں آسانی ہوتی ہے، بعض صحابہ نے اس کی وصیت بھی فرمائی ہے‘‘۔ (ج:9، ص: 108، ط: فاروق)

فتاوی محمودیہ کی مذکورہ عبارت (جو حوالہ میں منقول ہے) سے یہی معلوم ہوتا ہے:  "بعض صحابہ نے انگلی رکھنے کی وصیت فرمائی ہے۔"

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کسی صحابی نے اس طرح کی وصیت فرمائی ہے؟ نیز یہاں مجیب محترم نے فتاوی محمودیہ کی پوری عبارت نقل نہیں فرمائی، بلکہ درمیان سے کچھ عبارتیں حذف کردی ہیں جس سے مطلب کچھ سے کچھ ہوگیا پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"سورۂ بقرہ کا اول آخر پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، انگشتِ شہادت مٹی میں رکھنا ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشائخ ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں مضائقہ نہیں، میت کو دفن کرنے کے بعد کچھ دیر تک ٹھہرنا اور ذکر تسبیح میں مشغول رہنا۔ اور دعا کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس سے سوال وجواب میں آسانی ہوتی ہے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وصیت بھی فرمائی ہے۔"

( فتاوی محمودیہ : ۹/ ۱۰۸، باب الجنائز ، عنوان : بعد دفن سورہ ٔ بقرہ اول وآخر پڑھنا ، ط: فاروقیہ کراچی )

فتاوی محمودیہ کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ نے جو وصیت فرمائی ہے وہ قبر پر انگلی رکھنے کی نہیں، بلکہ میت کو دفن کرنے کے بعد کچھ دیر ٹھہر کر ذکر واذکار اور دعا وتسبیح وغیرہ کی وصیت کی ہے، جیساکہ حدیث میں ہے:

"عَنْ عَمْرِو بْنِ العاصِ قالَ لِابْنِهِ وهُوَ فِي سِياقِ المَوْتِ: إذا أنا مُتُّ فَلاتَصْحَبْنِي نائِحَةٌ ولا نارٌ فَإذا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرابَ شَنًّا، ثُمَّ أقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ ما يُنْحَرُ جَزُورٌ و يُقَسَّمُ لَحْمُها حَتّى أسْتَأْنِسَ بِكُمْ، و أعْلَمَ ماذا أُراجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي. رَواهُ مُسلم."

(مشکوۃ المصابیح : ۵۳۷، کتاب الجنائز ، باب دفن المیت ، الفصل الثالث، المکتب الاسلامی بیروت)

غرض یہ کہ مجیب محترم کا یہ کہنا کہ "اور بعض صحابہ نے اس کی وصیت فرمائی تھی" تسامح پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ اور بطور حوالہ فتاوی محمودیہ کی عبارت پیش فرمانا یہ بھی محلِّ نظر ہے؛ کیوں کہ اس کی اصل عبارت مستدل نہیں بن سکتی۔ نیز قبر پر انگلی رکھنے کا عمل اگر کسی اکابر سے منقول ہے تو اس کی بھی نشان دی فرمائیں۔ جامعہ کے فتویٰ کی لنک یہ ہے:

https://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D9%82%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%D9%81-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%83-%D8%A8%D9%82%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%88%D8%A2%D8%AE%D8%B1-%D9%BE%DA%91%DA%BE%D9%86%D8%A7-144103200669/25-11-2019

جواب

        میت کو دفن کرنے کے بعد سورۂ بقرہ کا اول وآخر پڑھتے ہوئے  قبر پر انگلی رکھنا  حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کی وصیت کا ثبوت نہیں مل سکا۔ بلکہ بعض مشایخ سے ثابت ہے، جیساکہ فتاویٰ محمودیہ میں مذکور ہے۔ 

باقی محولہ بالا سابقہ فتوے (فتویٰ نمبر: 144103200669) میں دار الافتاء سے جو جواب جاری کیا گیا اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اس وصیت کا ذکر نہیں ہے، البتہ ویب سائٹ پر کمپوزنگ کے دوران تسامح ہوگیا اور فتاویٰ محمودیہ کی عبارت میں درمیان سے ایک سطر ساقط ہوگئی، اس کی وجہ سے حکم میں فرق آگیا، یہ عبارت "بعض صحابہ نے  اس کی وصیت فرمائی تھی" اس کا تعلق  انگلی رکھنے کے ساتھ نہیں، بلکہ کچھ دیر قبر پر ٹھہر کر کچھ دیر قراءت وغیرہ میں مشغول رہنے کے ساتھ ہے۔ اور فتاوی محمودیہ کے موجودہ نسخے میں اگر غور کیا  جائے  تو نیچے اور اوپر  دونوں سطروں میں بالکل برابر میں  اتفاقًا   ایک ہی لفظ: "مضائقہ نہیں "  آیا ہے، اس کی  وجہ سے شاید ناقل کی نگاہ چوک گئی اور اوپری سطر والے "مضائقہ نہیں" کے بعد اگلی سطر والے جملہ "مضائقہ نہیں"  سے آخر تک عبارت نقل کردی۔ ملاحظہ ہو:

’’سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، انگشتِ شہادت مٹی میں رکھنا ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشائخ ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں مضائقہ نہیں، میت کو دفن کرنے کے بعد کچھ دیر تک ٹھہرنا اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا اور دعا کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس سے سوال وجواب میں آسانی ہوتی ہے، بعض صحابہ نے اس کی وصیت بھی فرمائی ہے‘‘۔ (ج:9، ص: 108، ط: فاروق)

بہرحال آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس تسامح کی طرف توجہ دلائی، اب سابقہ فتویٰ میں فتاویٰ محمودیہ کی عبارت کا حوالہ اور اس کے مطابق متن بھی درست کردیا گیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرًا

اہلِ قبر سے استفادہ کے سوال  کے جواب میں حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے یہ طریقہ لکھا ہے کہ سورہ بقرہ کے اول وآخر پڑھتے ہوئے  قبر پر انگلی رکھے ۔۔۔الخ

فتاوی عزیزی فارسی میں ہے:

"سوال: برائے دریافت اینکہ اہلِ قبر کامل ست یا نہ ودر صورتیکہ اہلِ قبر کامل باشد ازواستمداد بچہ صورت باید کرو ؟

جواب : بعضے از اہل قبور مشہور بکمال اند، و کمال ایشان متواتر شدہ، طریق استمداد از ایشان آنست کہ: جانبِ سر قبرِ او سورہ بقر انگشت بر قبر نہادہ تا مُفْلِحُوْنَ بخواند ،باز بطرف پائیں قبر بیاید، و آمَنَ الرَّسُوْلُ تا آخر سورہ بخواند، وبزبان گوید: اے حضرت من! برائے فلان کار در جناب الہی التجا و دعا میکنیم، شما نیز بدعا وشفاعت امداد من نمائید، باز رو بقبلہ آرد ومطلوب خود را از جناب باری خواہد، وکسانیکہ کمال اینان معلوم نیست ومشہور و متواتر نشدہ دریا فت کمال آنہا بہمان طریق است کہ بعد از فاتحہ و درود وذکر سُبُّوْحٌ دل خود را مقابلہ سینہ مقبور بدارد وا گر راحت و تسکین ونورے دریافت کند بداند کہ این قبر اہل صلاح و کمال ست، لکن استمداد از مشہورین باید کرد۔"

(فتاوى عزيزي: «مجموعه رسائل خمسه»، «رساله فيض عام» (1/ 176،177)،ط. مطبع مجتبائي، دهلي، سنة الطبعة:1322ه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں