بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا/ قبر پر پودا لگانا


سوال

(۱):قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا ہے؟

(۲):قبر پراس نیت سے پودا لگوانا کہ پودہ جاندار چیزہے اوروہ اللہ کی حمدوثنا بیاں کرے گا تو اس سے اس قبر پر اللہ کی رحمت برسے گی، کیا اس طرح کرنا اور اس طرح عقیدہ رکھنا شرعا جائز ہے؟

جواب

(۱): قبرستان میں میت کےلیے مغفرت کی دعا کرنا اور ہاتھ اٹھا کر دعامانگنا جائز ہے، لیکن چوں کہ لوگ کثرت سے مزارات پر جاکر اپنی مرادیں قبر والوں سے مانگتے ہیں جو کہ حرام اور شرک ہے، اس لیے دعا کے وقت ہاتھ نہ ا ٹھانا بہتر ہے، تاکہ ان کے ساتھ مشابہت نہ ہو، تاہم اگر دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا ہو تو قبلہ رو ہوکر  ہاتھ اٹھایا جائے۔ 

(۲): واضح رہے کہ قبروں پر پودے لگانا یا پھول ڈالنا شرعاً  ثابت نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر ٹہنی لگانے کی جو حدیث مروی ہے، اس کے متعلق شارحینِ حدیث نے  فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قبر پر پودا لگانا  شرعا درست نہیں،البتہ قبر پر اگر گھاس اُگ آئے تو خودرو ہری گھاس کی تسبیح سے میت کو انس ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، پس اس کو نہ کاٹنا چاہیے ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌محمد بن قيس بن مخرمة بن المطلب « أنه قال يوما: ألا أحدثكم عني وعن أمي، قال: فظننا أنه يريد أمه التي ولدته، قال: قالت ‌عائشة : ألا أحدثكم عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: بلى، قال: قالت: لما كانت ليلتي التي كان النبي صلى الله عليه وسلم فيها عندي ‌انقلب ‌فوضع ‌رداءه، وخلع نعليه، فوضعهما عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فاضطجع، فلم يلبث إلا ريثما ظن أن قد رقدت، فأخذ رداءه رويدا، وانتعل رويدا، وفتح الباب، فخرج، ثم أجافه رويدا، فجعلت درعي في رأسي، واختمرت وتقنعت إزاري، ثم انطلقت على إثره، حتى جاء البقيع، فقام، فأطال القيام، ثم رفع يديه ثلاث مرات ثم انحرف..."

[كتاب الجنائز، ج:3، ص:63، ط:دار طوق النجاة]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وإذا ‌أراد ‌الدعاء يقوم مستقبل القبلة كذا في خزانة الفتاوى."

[كتاب الكراهية، الباب السادس عشر في زيارة القبور، ج:5، ص:250، دار الكتب العلمية]

المدخل لابن الحاج میں ہے:

"ويحذرهم من تلك البدع التي أحدثت هناك فترى من لا علم عنده يطوف بالقبر الشريف كما يطوف بالكعبة الحرام ويتمسح به ويقبله ويلقون عليه مناديلهم وثيابهم يقصدون به التبرك، وذلك كله من البدع؛ لأن التبرك إنما يكون بالاتباع له - عليه الصلاة والسلام - وما كان سبب عبادة الجاهلية للأصنام إلا من هذا الباب."

[فصل في زيارة  القبور، ج:1،ص:262،ط:دار التراث]

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال: (إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، أما هذا: فكان لا يستتر من بوله، وأما هذا: فكان يمشي بالنميمة). ثم دعا بعسيب رطب ‌فشقه ‌باثنين، فغرس على هذا واحدا، وعلى هذا واحدا، ثم قال: (لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا)."

[كتاب الأدب، باب الغيبة، ج:5، ص:2249، ط:دار ابن كثير]

فتح الباری میں ہے:

"قال المازري: ‌يحتمل ‌أن ‌يكون ‌أوحي إليه أن العذاب يخفف عنهما هذه المدة انتهى....‌وقد ‌استنكر ‌الخطابي ‌ومن ‌تبعه وضع الناس الجريد ونحوه في القبر عملا بهذا الحديث وقال الطرطوشي لأن ذلك خاص ببركة يده."

[كتاب الوضوء، ج:1، ص:320، ط:دار المعرفة]

وفیہ ایضا:

"بعض العلماء قال: ‌إنها ‌واقعة ‌عين يحتمل أن تكون مخصوصة بمن أطلعه الله تعالى على حال الميت."

[باب الجريدة على القبر، ج:3، ص:224، ط:دار المعرفة]

فتاوی شامی میں ہے:

"يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله - تعالى - فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية."

[كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:245، ط: سعيد]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں