بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر میٹر کی بجلی استعمال کرنا


سوال

1۔ ہم بغیر میٹر کی بجلی استعمال کرتے ہیں، پہلے ہم نے میٹر لگایا ہوا تھا، بعد میں بجلی والا آیا اور وہ میٹر اتار کر لے گیا، اب سال میں تقریبا دو تین مرتبہ بجلی کا بل آتا ہے، کبھی بل کی پرچی پر پانچ ہزار، کبھی چھ ہزار اور کبھی سات ہزار بل لکھا ہوتا ہے اور ہم اسی پرچی پر لکھے ہوئے بل کے مطابق بل ادا کرتے ہیں، مگر ہم بجلی اس سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔  کیا ہمارے لیے یہ بجلی استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔ اگر کسی شخص نےکسی بااثر بندے سے یہ منظوری کروائی کہ باقیوں کی بجلی 12 گھنٹے ہوگی اور میری بجلی 24 گھنٹے ہوگی یا باقیوں کی بجلی ایک دن ہوگی اور دوسری دن نہیں ہوگی اور اس بندے کی بجلی روزانہ ہوگی، یا کوئی شخص بغیر بل بجلی استعمال کر رہا ہ، تو آیا یہ ایسی سفارش کرنا یا کسی بااثر بندے کے دباؤ کی وجہ سے یا اپنی سرمایہ داری کی وجہ سے  اس طرح جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ بغیر میٹر کے بجلی کا استعمال کرنا درست نہیں ہے، بجلی ہر شہری کا حق ہے اس لیے بجلی کا چوری کرنا یا اصل استعمال سے کم قیمت ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ متعلقہ ادارہ سے رجوع کر کےقانونی طریقہ  کے مطابق میٹر لگوائے اور  اپنا میٹر  درست کروائے، تا کہ بجلی کے استعمال کے مطابق بل ادا کرے، اگر فی الفور یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس کے لیے بھی متعلقہ ادارہ سے کچھ طے  کر ا کے اس کے مطابق عمل کرے، اگر حکومتی ادارہ انہیں  کسی مستند  پرچی پر بل بنا کر بھیجے اور بل کی رقم ادارہ میں جمع کی جائی ہو تو وہ بل ادا کر کے بجلی استعمال کرتا رہے،  تاہم میٹر کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنےکی  کو شش کرے۔

2۔کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی با اثر بندے  سے یہ منظوری کرائے کہ دیگر لوگوں کے لیے بجلی 12 گھنٹے ہوگی اور میری بجلی 24 گھنٹے ہوگی،  یا باقیوں کی بجلی ایک دن ہوگی اور ایک دن نہیں ہوگی اور اس شخص کی بجلی روزانہ ہوگی، کیوں کہ اس صورت میں اگرچہ یہ اپنا بل مکمل طور پر ادا کرتا  ہو، لیکن علاقے کے لیے طے شدہ بجلی کا بڑا حصہ استعمال کر کے دوسروں کو محروم کرنے والا ہو گا اور    دوسروں کی اذیت اور تکلیف کا باعث بنے گا، اسی طرح کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر بل ادا کیے بجلی استعمال کرتا رہے۔

شرح المجلہ ميں ہے:

"لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا."

(درر الحکام في شرح مجلة الأحكام،مقدمة الكتاب، المقالۃ الثانیة، المادة: 97، 98/1، ط: دار الجيل)

"آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں ہے:

 "سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ جو لوگ بغیر میٹر کے بجلی کا استعمال کرتے ہیں وہ پوری قوم کے چور ہیں۔"

(کھانے پینے کے بارے میں شرعی اَحکام ، چوری کی بجلی سے پکا ہوا کھانا کھانا اور گرم پانی سے وضو کرنا،  186/7، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں