بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قابل ادا قسطوں پر زکات کا حکم


سوال

میں نے اپنی رہائش کے لیے مکان قرضے پر خریدا ہے ،جس کی میں  ہر مہینے  قسط دے رہا ہوں، کیا میں اپنی باقی آمدن میں سے زکوة دوں گا یا قرض دار ہونے کی وجہ سے مجھ پر زکات فرض نہیں ہے؟

جواب

قسطوں کا قرضہ دین مؤجل ہے اور دین مؤجل زکوۃ واجب ہونے سے مانع نہیں ہے،اوراس کا حکم یہ ہے کہ زکات کا حساب کرتے وقت دینِ مؤجل کی پوری رقم مالِ زکاة سے منہا نہیں کی جاتی، بلکہ ایک سال میں جتنی قسطیں بنتی ہوں ،اتنی رقم زکاة سے منہا کی جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میںایک سال کیواجب الاداءقسطوں کی رقم منہا کی جائے گی، اس کومنهاكرنےكے بعد اگر آپ كے پاس موجودبقیہ رقم تنہا یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر نصاب( یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت)کے برابر یا اس سے زائد  ہے، توسال پورا ہونے پر  اس  مال پر زکوۃ واجب ہوگی،اور اگر   رقم نصاب کی مقدار سے کم ہے ،تو زکات واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"فارغ عن دین له مطالبٌ من جھة العباد سواء کان ﷲ کزکاۃ .… ولو کفالة او مؤجلا قال إبن عابدین رحمه اﷲ تحت قوله أو مؤجلا عزاہ في المعراج إلي شرح الطحاوي وقال وعن أبي حنیفة لایمنع وقال الصدر الشھید لاروایة فیه، زاد القھستاني عن الجواھر والصحیح أنه غیر مانع."

(کتاب الزکوٰۃ، 260/2، ط: سعید)

‌بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا ‌كان ‌على ‌الرجل دين وله مال الزكاة وغيره من عبيد الخدمة، وثياب البذلة، ودور السكنى فإن الدين يصرف إلى مال الزكاة عندنا سواء كان من جنس الدين أو لا."

‌‌(فصل شرائط فرضية الزكاة، 86/2، ط:دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"فإن كان عليه ‌دين ‌محيط فلا زكاة فيه على أحد بالاتفاق."

(کتاب الزکوۃ،355،56/2، ط:العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں