بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کا حق انہیں دینا لازم ہے


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، ان کے ورثاء میں ایک بیٹا اور سات بیٹیاں ہیں، اور پھر میری والدہ محترمہ اچانک بیمار پڑیں اور تقریبا دس دن ہسپتال میں زیر علاج رہ کر 09 فروری 2022 کو رضائے الہی سے وہ بھی انتقال کرگئیں۔ إنا لله وإنا إليه راجعون ۔میرے والد کے ترکے میں سے ایک دکان ہے ،جس کے وہ تنہا مالک تھے،  جس کی تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی، وہ دکان میرے بھائی کے نام پر ہےاور چچا کے قبضے میں ہے ، میرے بھائی ( ہم سب میں بڑے اور اکلوتے ) جن کے نام مذکورہ دکان ہے، پاکستان تشریف لائے اور والدہ کی تدفین کے بعد کچھ دن قیام کے بعد واپس چلے گئے ۔ اپنے اس مختصر قیام کے دوران بھائی نے غیرذمہ دارانہ رویہ کے ساتھ غیر دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے صاف الفاظ میں دکان چچا کے قبضے سے واپس لینے سے انکار کردیا۔ مذکورہ دکان دنیاوی قانون کے اعتبار سے بھائی کے نام ہے ،اس لیے اب جب کہ چچا پہلے ہی دکان سے قبضہ چھوڑنے سے انکاری ہیں، بھائی کے مکمل تعاون کے بغیر میرے لیے اپنا حصہ حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔

 (1) : کیا میرے بھائی شرعی اعتبار سے اس دکان کو چچا کے بیٹوں کے قبضے سے واپس لے کر میرا حصہ دلوانے کے پابند ہیں؟ جب کہ میں اپنا ایک حصہ کی رقم دکان کی حالیہ قیمت ( بلحاظ مارکیٹ ریٹ ) میں سے اور ایک ہی حصہ کرایہ کی ٹوٹل رقم میں سے ( جو پچھلے دس سال مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے رہا ہو ) لینا چاہتی ہوں ۔ 

(2) : اگر بھائی نے میرا حصہ دلوانے میں مکمل طور پر تعاون نہ کیا تو کیا میرے بھائی بھی، میرے چچا اور دکان پر قابض ان کے بیٹوں سمیت بروز قیامت میرے قصوروار ہوں گے؟

واضح رہے کہ آج بھی چچا اپنے ہوش و حواس میں اپنے گھر کا خرچ اس دکان پر جمائے ہوئے کاروبار سے چلا رہے ہیں ۔ شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ دکان آپ کے والد مرحوم کی ملکیت تھی، اور انہوں نے اپنے بیٹے کے نام پر کی تھی، لیکن قبضہ والد کا ہی تھااور وہ تنہا اس دکان کے مالک تھے تویہ دکان ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء یعنی بیٹے اور بیٹیوں کی ملکیت ہے۔اور اگر یہ دکان کرایہ پر ہے تو اس کرایہ کے حق دار بھی مرحوم کے یہی شرعی ورثاء ہیں، مرحوم کے بھائی یعنی سائلہ کے چچا اور ان کے بیٹوں کا اس دکان پر قبضہ جمانا شرعاً واخلاقاً ناجائز ہےاور انہوں نے اب تک جتنے سالوں کا کرایہ وصول کیا ہے وہ مرحوم کے ورثاء کو واپس کرنا لازم ہے۔مذکورہ دکان کےحاصل ہونے والے  کرایہ اور فروخت کی صورت میں اس کی موجودہ قیمت کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل رقم کو 9حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دو حصے مرحوم کے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو دیا جائے گا۔جب مذکورہ دکان بھائی کے نام پر ہے اوران کے تعاون کے بغیر چچا سے اس دکان کا قبضہ چھڑانا اور ورثاء میں تقسیم کرنا ممکن نہیں تو :

۱۔بھائی اس بات کے پابند ہیں کہ چچا سے اس دکان کا قبضہ چھڑا کر تمام ورثاء میں یہ دکان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیں۔

۲۔اگر بھائی جان بوجھ کر اس دکان کا قبضہ چھڑانے سے غفلت برتتے ہیں ،تو وہ دیگر ورثاء یعنی بہنوں تک  ان کے حق کے پہنچنے میں عدم تعاون کی وجہ سے قصوروار کہلائیں گے۔نیز چچا کا اس دکان پر قبضہ جمانا ، کرایہ وصول کرنا اور اُسے اپنے استعمال میں لانا شرعاً جائز نہیں ہے، کسی کے حق پر قبضہ جماناشرعاً غصب کہلاتا ہے اور قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں کسی کے مال کو ناحق طریقے پر کھانے اور اس پر قابض بننے سے منع کیا گیا ہے ، نیز اس پر سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے :

قرآن مجید میں ہے :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِل                                (النساء۔۲۹)

ترجمہ:"اور آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق مت کھاؤ"۔(بیان القرآن) 

حدیث شریف میں ہے:

’’عن أنس رضی اللہ عنہ قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة‘‘۔

(مشکوٰۃ المصابیح الفصل الثالث،ج۔۱،ص۲۷۲ط رحمانیہ)

ترجمہ:

 حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ (مظاہرِ حق )

البحر الرائق میں ہے:

’’لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي».‘‘

(کتاب الحدود، ج:۵، ص:۴۴، ط: دار الکتاب الإسلامي)

در مختار ميں ہے :

’’(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول‘‘۔

(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب القسمۃ ، ج۔۶،ص۔۲۶۰،ط۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں