ہمارا ایک مکان ہے جو میری دادی، میری والدہ، اور میرے والد صاحب کی دو بڑی بھابھیوں کے نام ہے، ان چاروں لوگوں کی وفات ہو چکی ہے، میرے دادا نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، سب کا انتقال ہوچکا ہے اور دوسری بیوی سے صرف ایک بیٹا ہے جو کہ میرے والد صاحب تھے ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے، آپ سے سوال یہ ہے کہ دادی کا حصہ جو کہ کل جائیداد (یعنی مذکورہ مکان) کا 25 فیصد ہے، اس کی تقسیم کیسے کی جائے گی؟ کیا میری دادی کی سوتیلی اولاد یعنی میرے دادا کی پہلی بیوی کی اولاد جو سب فوت ہو چکے ہیں ان کے ورثا کا بھی میری دادی کے حصہ میں کوئی حق بنتا ہے؟
واضح رہے کہ کاغذات میں کسی کے نام جائیداد یا مکان ہونا شرعًااس کی ملکیت کی دلیل نہیں، اصل مالک کی طرف سے بذریعہ خریداری یا وراثت یا ہبہ وغیرہ کے ذریعے ملکیت کی منتقلی ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مکان کے اصل مالک سائل کے دادا تھے، اور انہوں نے یہ پورا مکان اپنی ایک بیوی اور تین بہوؤں کے نام کردیا تھا، یعنی ان کے حصے متعین کیے بغیر ان کے نام کردیا تھا، تو شرعًا یہ ہبہ معتبر نہیں ہے، لہذا مکان بدستور دادا کی ملکیت تھا، جو ان کی وفات کے بعد ان کا ترکہ بن گیا، اب ان کے ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔
اس صورت میں مذکورہ مکان میں دادی کا حصہ 25 فی صد نہیں ہوگا، بلکہ اگر سائل کے دادا کے انتقال کے وقت ان کی دونوں بیویاں زندہ تھیں، تو ہر بیوہ کا حصہ 6.25فی صد ہے، اور یہ حصہ ہر ایک بیوہ کی اپنی اولاد کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا، اس کی سوتیلی اولاد کو حصہ نہیں ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"هبة المشاع فيما يقسم لاتفيد الملك عند أبي حنيفة، وفي القهستاني: لاتفيد الملك وهو المختار، كما في المضمرات. وهذا مروي عن أبي حنيفة، و هو الصحيح اهـ".
(كتاب الهبة/ج:٥/ص:٦٩١/ط:دارالفكر)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
"وإنما لم تجز هبة المشاع فيما يقسم؛ لأن القبض منصوص عليه في الهبة قال عليه الصلاة والسلام: { لاتجوز الهبة إلا مقبوضةً} فيشترط كمال القبض والمشاع لايقبله إلا بضم غيره إليه وذلك غير موهوب، ولأنّ في تجويزه إلزامه شيئًا لم يلتزمه وهو القسمة.وقوله: فالهبة فاسدة أي لايثبت الملك فلو أنه وهب مشاعًا فيما يقسم وسلّمه على الفساد هل يثبت الملك ويقع مضمونًا كما في البيع الفاسد أم لا؟ فيه اختلاف المشايخ والمختار أنه لايثبت الملك ويجب الضمان قوله: (فإن قسمه وسلّمه جاز) ؛ لأنّ تمامه بالقبض وعنده لا شيوع".
(كتاب الهبة/ج:٣/ص:٢٦٢)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202200564
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن