بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبیلہ اور خاندان کے نسب کے ثبوت کے لیے شہرت کافی ہے


سوال

قبیلہ در قبیلہ کے شجرہ نسب کے ثبوت  کا شرعاً کیا حکم  ہے؟ حتمی طور پرسرکاری کاغذات کا اعتبار ہوگایا اس میں شرعاً  کوئی تفصیل ہے ؟ آج کے دور میں  اکثر لوگ اپنے آپ کو سید کہتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نسب کے معلوم کرنے کے لیے شہرت اور سینہ بسینہ روایات کافی ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قبیلہ  در قبیلہ کسی کا شجرہ نسب محفوظ ہو چاہے سرکاری کاغذات میں ہو یا عوام میں  مشہور ہو  (بشرط یہ کہ اس کے خلاف  پر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہو) تو وہی اس کا قبیلہ و خاندان ہوگا، اسی طرح سید ہونے کے لئے بھی  نسب میں شہرت کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ سید نہ ہونے پر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہو، لہذا اگر کسی خاندان کے لوگ آباؤاجداد سے سید مشہور ہیں،  تو  سید ہونے کے لیے اتنی شہرت کافی ہے، اگرچہ ان کے پاس نسب نامہ موجود نہ ہو۔

فتح القدير ميں ہے:

"(قوله: ولا يجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه) أي لم يقطع به من جهة المعاينة بالعين أو السماع إلا في النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأمور إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين أو رجل وامرأتين، ... وفي الفصول عن شهادات المحيط: في النسب أن يسمع أنه فلان بن فلان من جماعة لايتصور تواطؤهم على الكذب عند أبي حنيفة، وعندهما إذا أخبره عدلان أنه ابن فلان تحل الشهادة، وأبو بكر الإسكاف كان يفتي بقولهما، وهو اختيار النسفي."

(كتاب الشهادات، ج:7، ص:389، ط:دار الفكر)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"في الفتاوى الصغرى ‌الشهادة ‌بالشهرة في النسب وغيره بطريقتين: الحقيقة والحكمية. فالحقيقة أن تشتهر وتسمع من قوم كثير لا يتصور تواطؤهم على الكذب، ولا تشترط في هذه العدالة، ولا لفظ الشهادة بل يشترط التواتر. والحكمية أن يشهد عنده رجلان أو رجل وامرأتان عدول بلفظ الشهادة كذا في الخلاصة."

(كتاب الشهادات، الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك، ج:3، ص:458، ط:دار الفکر)

امدادالفتاویٰ میں ہے:

سوال:جو شخص کہ  سید کہا جاتا ہے، مگر اس کے نسب کا کہیں پتہ نہیں؛  بل کہ یہ خیال ہوتا ہے کہ  چونکہ اس کے یہاں تعزیہ داری وغیرہ ہوتی ہے،  اس کے سبب سے سید کہلاتا ہے، اور اس کی قرابتیں بھی عام طور سے جو لوگ شیخ کہلاتے ہیں ان میں ہوتی ہے،  تو ایسے شخص کو زکاۃ کا مال دے سکتے ہیں یا نہیں؟ یا صرف تسامع سے اس کو سید مانیں گے گو کہ سید نہ ہو؟

جواب: نسب میں تسامع کافی ہے، جب کہ مکذّب بیّن نہ ہو۔ فقط

(کتاب الزکاۃ والصدقۃ، ج:2، ص:58، ط:دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں