گھر میں تلاوت کرکے ایصال ثواب کرنے اور قبر پر تلاوت کرکے ایصال ثواب کرنے میں کوئی فرق ہے یانہیں؟
دونوں صورتوں میں تلاوت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، البتہ قبر کے پاس تلاوت کرنے سے میت کو انسیت اور آرام بھی حاصل ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کونزع كي حالت ميں وصيت كي تھی کہ میری قبر کے پاس دعا کے لیے اتنے وقت کھڑے ہو کہ اونٹ کو ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے یہاں تک کہ میں تمہارے ٹھہرنے کی وجہ سے آرام حاصل کرسکوں۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن عمرو بن العاص قال لابنه وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار، فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها، حتى أستأنس بكم، وأعلم ماذا أراجع به رسل ربي
(ثم أقيموا حول قبري) لعله دعاء بالتثبيت وغيره. (قدر ما ينحر جزور) أي: بعير وهو مؤنث اللفظ، وإن أريد به المذكر، فيجوز تذكير ينحر وتأنيثه. (ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم أي: بدعائكم وأذكاركم وقراءتكم، واستغفاركم، وقد ورد في خبر أبي داود: أنه كان إذا فرغ من دفن الرجل يقف عليه ويقول: استغفروا الله لأخيكم، واسألوا له التثبيت، وفي رواية التثبت فإنه الآن يسأل."
(كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:3، ص:1227، ط:دار الفكر)
فتاوی ہندیۃ میں ہے:
"وإن قرأ القرآن عند القبور إن نوى بذلك أن يؤنسه صوت القرآن فإنه يقرأ وإن لم يقصد ذلك فالله تعالى يسمع قراءة القرآن حيث كانت كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الكراهية، الباب السادس عشر في زيارة القبور وقراءة القرآن في المقابر، ج:5، ص:350، ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101453
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن