بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر ملنگ مقرر کرنا / قبر کی مٹی اور وہاں رکھا نمک پانی میں گھول کر پینا / قبر کے مجاور کو زکات دینا


سوال

زمانہ قدیم میں ایک گاؤں میں ایک بزرگ کا انتقال ہوا تو اس کی قبر ایک خاص جگہ بنائی گئی، پھر لوگ اس کی قبر پر آتے، اور قبر کی مٹی اٹھا کر لے جاتے، اور اسے پانی میں ڈال کر پانی بطور شفاء استعمال پيتے تھے۔

اب موجودہ زمانہ میں لوگوں نے اس بزرگ کی قبر پر ایک شخص کو بطور ملنگ مقرر کیا ہے، جو قبر پر آنے والے لوگوں پر دم کرتا ہے، اور انہیں قبر کی مٹی دیتا ہے، اور اسی قبر کے سر کی طرف سے نمک رکھا ہوا ہے، وہ ملنگ آنے والے لوگوں کو وہ نمک بھی دیتا ہے، جسے آنے والے لوگ بطور شفاء استعمال کرتے ہیں۔

لوگ اس قبر پر آنے نذرانے لے جاتے ہیں، اور بکری گائے وغیرہ بھی وہاں لے جاکر بطور نذرانہ ذبح کرتے ہیں۔

نیز قبر پر مقرر شدہ ملنگ کو ہر سال زکوة ، صدقات، اور خیرات بھی دیتے ہیں۔

مذکورہ ملنگ کبھی کبھار چرس  بھی پیتا ہے۔۰

1۔ کیا اس طرح کسی شخص کو قبر پر مقرر کرنا جائز ہے؟

2۔ کیا مذکورہ ملنگ کو زکوة، صدقات، اور خیرات دینا جائز ہے؟

3۔ کیا مذکورہ بزرگ کی قبر کی مٹی اور نمک بطور شفاء استعمال کرنا جائز ہے؟  اگر جائز ہے تو استعمال کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

جواب

1۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں قبر پر کسی شخص کو متعین کرنا بدعت واجب الترک ہے، البتہ صفائی ستھرائی، اور آنے والے لوگوں کو شرک و بدعت سے روکنے کے لئے کسی شخص کو متعین کرنا جائز ہے۔

2۔ زکوة  و صداقات واجبہ ہر اس مسلمان شخص کو دینا جائز ہے، جو خود صاحب نصاب نہ ہو، اور نہ ہی اس کی ملکیت میں ضروریات زندگی سے زائد اتنا ساز و سامان ہو جس کی مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے مساوی یا اس سے زائد بنتی ہے، پس مسئولہ صورت میں محض ملنگ ہونے کی بنیاد پر زکوة دینا جائز نہ ہوگا، بلکہ مذکورہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھ کر زکوة دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا، البتہ نفلی صدقات و خیرات دی جا سکتی ہیں، اگرچہ صدقات نافلہ و خیرات متقی و متبع سنت افراد کو دینا افضل ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''۔

(كتاب الزكاة، باب المصرف، کتاب الزکاة، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)

المجموع شرح المهذب للنووی میں ہے:

"{فرع} يستحب أن يخص بصدقته الصلحاء وأهل الخير وأهل المروءات والحاجات فلو تصدق على فاسق ... جَازَ."

(باب زكوة الذهب و الفضة، باب قسم الصدقات، ٦ / ٢٤٠، ط: دار الفكر)

3۔ عام مٹی کھانا  یا گھول کر پینا شرعا مکروہ ہے، جبکہ قبر کی مٹی کو تبرکا کھانے پینے میں کراہت اتم درجہ کی ہے، اور اگر شرکیہ عقیدہ ( یعنی مذکورہ قبر کی مٹی کو  شفا دینے والی  یا صاحب قبر کو شفا دینے والا  سمجھ کر) کے ساتھ ہو تو حرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

أكل الطين مكروه، هكذا ذكر في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - وذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح صومه إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيء سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلا أو كان يفعل ذلك أحيانا لا بأس به، كذا في المحيط.

الطين الذي يحمل من مكة ويسمى طين حمزة هل الكراهية فيه كالكراهية في أكل الطين على ما جاء في الحديث؟ قال: الكراهية في الجميع متحدة، كذا في جواهر الفتاوى.

وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال لا بأس بذلك ما لم يضر وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء، وعن ابن المبارك كان ابن أبي ليلى يرد الجارية من أكل الطين وسئل أبو القاسم عمن أكل الطين قال ليس ذلك من عمل العقلاء، كذا في الحاوي للفتاوى.

والمرأة إذا اعتادت أكل الطين تمنع من ذلك إذا كان يوجب نقصانا في جمالها، كذا في المحيط.

( كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به، ٥ / ٣٤٠، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں