بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر درود شریف پڑھنا


سوال

والد صاحب  کی قبر پر بیٹھ کر درود شریف پڑھنے پر انہیں کتنا ثواب ملتا ہے؟

جواب

اہل السنہ و الجماعہ کے نزدیک اپنی  کسی  نفلی عبادت  کا ثواب کسی مرحوم کو بخشنا  نا صرف جائز ہے،  بلکہ اس کا ثواب مرحوم کو پہنچتا بھی ہے،  پس اگر کوئی شخص ذکر و اذکار  یا درود شریف پڑھ کر   اپنے کسی مرحوم کو بخشے تو اس کی شرعًا اجازت ہوگی، اور ایسا کرنا مرحوم کی بخشش کا سبب بھی ہوگا،  لیکن اس کے لیے قبر پر جاکر پڑھنا ضروری نہیں ہے، جگہ اور وقت کے التزام کے بغیر حسبِ توفیق ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ امام سخاوی رحمہ اللہ نے درود شریف پڑھ کر مردوں کو بخشنے کے حوالے سے ایک واقعہ  اپنی تصنیف "القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِِ " میں نقل کیا  ہے:

"وروي أنّ امرأةً جاءت إلى الحسن البصري فقالت له: يا شيخ توفيت لي بنية و أريد أن أراها في المنام؟ فقال لها الحسن: صلي أربع ركعات و اقرأي في كل ركعة فاتحة الكتاب مرةً وسورة "الهكم التكاثر" مرةً، وذلك بعد صلاة العشاء الآخرة، ثم اضجعي و صلي على النبي صلى الله عليه وسلم حتى تنامي، ففعلت ذلك فرأتها في النوم و هي في العقوبة والعذاب، و عليها لباس القطران و يداها مغلولة و رجلاها مسلسلة بسلاسل من النار، فلما انتبهت جاءت إلى الحسن فأخبرته بالقصة، فقال لها: تصدقي بصدقة لعل الله يعفو عنها، و نام الحسن تلك الليلة فرأى كأنه في روضة من رياض الجنة ورأى سريرًا منصوبًا وعليه جارية حسناء جميلة و على رأسها تاج من نور، فقالت: يا حسن اتعرفني؟ فقال: لا، فقالت أنا ابنة تلك المرأة التي أمرتها بالصلاة على محمد صلى الله عليه وسلم، فقال لها الحسن: إن أمك وصفت لي حالك بغير هذه الرواية، فقالت له: هو كما قالت، قال: فبماذا بلغت هذه المنزلة؟ فقالت: كما سبعين ألف نفي في العقوبة  والعذاب كما وصفت لك والدتي، فعبر رجل من الصالحين على قبورنا و صلى على النبي صلى الله عليه وسلم مرة و جعل ثوابها لنا، فقبلها الله عز وجل منه و اعتقنا كلنا من تلك العقوبة وذلك العذاب ببركة الرجل الصالح و بلغ نصيبي ما قد رأيته وشاهدته."

( الباب الثاني: في ثواب الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص: ١٣٦ - ١٣٨، ط: دار الريان للتراث)

ترجمہ :”ایک عورت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میری لڑکی کا انتقال ہو گیا، میری یہ تمنا ہے کہ میں اس کو خواب میں دیکھوں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عشاء کی نماز پڑھ کر چار رکعت نفل نماز پڑھ اور ہر رکعت میں الحمد شریف کےبعد  الھکم التکاثرپڑھ اور اس کے بعد لیٹ جا اور سونے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھتی رہ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس نے لڑکی کو خواب میں دیکھا کہ نہایت ہی سخت عذاب میں ہے، تارکول کا لباس اس پر ہے،  دونوں ہاتھ اس کے جکڑے ہوئے ہیں اور اس کے پاؤں آگ کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ صبح کو اٹھ کر پھر حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئی۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے صدقہ کر۔ شاید اللہ جل شانہ اس کی وجہ سے تیری لڑکی کو معاف فرما دے۔

اگلے دن حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ جنت کا ایک باغ ہے اور اس میں ایک بہت اونچا تخت ہے اور اس پر ایک نہایت حسین و جمیل خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی ہے،  اس کے سر پر ایک نور کا تاج ہے۔ وہ کہنے لگی: حسن! تم نے مجھے بھی پہچانا؟ میں نے کہا:میں نے تو نہیں پہچانا۔ کہنے لگی: میں وہی لڑکی ہوں جس کی ماں کو تم نے درود شریف پڑھنے کا حکم دیا تھا یعنی عشاء کے بعد سونے تک،  حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تیری ماں نے تو تیرا حال اس کے بالکل برعکس بتایا تھا جو میں دیکھ رہا ہوں۔

اس نے کہا کہ میری حالت وہی تھی جو ماں نے بیان کی تھی۔ میں نے پوچھا: پھر یہ مرتبہ کیسے حاصل ہو گیا؟ اس نے کہا کہ ہم ستر ہزار آدمی اسی عذاب میں مبتلا تھے جو میری ماں نے آپ سے بیان کیا۔ صلحاء میں سے ایک بزرگ کا گزر ہمارے قبرستان پر ہوا، انہوں نے ایک دفعہ درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب ہم سب کو پہنچا دیا۔ ان کا درود اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسا قبول ہوا کہ اس کی برکت سے ہم سب اس عذاب سے آزاد کر دیے گئے اور ان بزرگ کی برکت سے یہ رتبہ نصیب ہوا۔

( فضائل درود شریف از شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ، پانچواں فصل: درود شریف سے متعلق پچاس حکایات،  ص: ١٧٢ - ١٧٣)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» صلى الله عليه وسلم وروي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله: إن أمي كانت تحب الصدقة أفأتصدق عنها؟ فقال النبي: صلى الله عليه وسلم تصدق» وعليه عمل المسلمين من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القرآن عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للأموات، ولا امتناع في العقل أيضا لأن إعطاء الثواب من الله تعالى إفضال منه لا استحقاق عليه، فله أن يتفضل على من عمل لأجله بجعل الثواب له كما له أن يتفضل بإعطاء الثواب من غير عمل رأسًا."

( كتاب الحج، فصل نبات الحرم، ٢ / ٢١٢، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200886

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں