بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر ہاتھ اٹھانے کا حکم


سوال

قبر  پر  ہاتھ  اٹھانا کیسا هے  حدیث کے روشنی میں؟

جواب

عام حالات میں قبرستان جاکر ہاتھ اٹھاکے دعا کرنا ثابت ہے، چناںچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ''جنت البقیع'' میں تشریف لائے اور کافی دیرٹھہرے رہے، پھرتین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ 

بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے، لیکن ان مواقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہو کر دعا فرماتے تھے۔

قبر کی طرف رخ کر کے دعا مانگنے میں صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ ہو سکتا ہے؛ اس لیے  قبر ستان میں دعا کرنی ہو تو  ہاتھ اٹھائے بغیر  ہی دعا کرلے، اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنی ہو تو  قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعا کرلی جائے؛ تاکہ قبر یا صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔ اور اگر صاحبِ قبر سے ہی مانگنا مقصود ہو تو یہ دعا شرعًا ممنوع ہے۔

ملفوظات حکیم الامت میں ہے:

”قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا نہ مانگنا چاہیے، حتی کہ دفن کے وقت بھی انتظامِ شریعت اسی میں ملحوظ ہے؛ تا کہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو جائے کہ مردہ سے حاجت مانگی جاتی ہے“ ۔(11/164، ط:تالیفات اشرفیہ)

صحيح مسلم (2/ 670):

"حدثنا حجاج بن محمد، حدثنا ابن جريج، أخبرني عبد الله - رجل من قريش - عن محمد بن قيس بن مخرمة بن المطلب، أنه قال يومًا: ألا أحدثكم عني وعن أمي قال: فظننا أنه يريد أمه التي ولدته، قال: قالت عائشة: ألا أحدثكم عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: بلى، قال: قالت: لما كانت ليلتي التي كان النبي صلى الله عليه وسلم فيها عندي، انقلب فوضع رداءه، وخلع نعليه، فوضعهما عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فاضطجع، فلم يلبث إلا ريثما ظن أن قد رقدت، فأخذ رداءه رويدا، وانتعل رويدا، وفتح الباب فخرج، ثم أجافه رويدا، فجعلت درعي في رأسي، واختمرت، وتقنعت إزاري، ثم انطلقت على إثره، حتى جاء البقيع فقام، فأطال القيام، ثم رفع يديه ثلاث مرات، ثم انحرف فانحرفت... الخ 

الفتاوى الهندية (5 / 350):

"وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى".

فتح الباري لابن حجر (11/ 144):

"وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبر عبد الله ذي النجادين، الحديث، وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه، أخرجه أبو عوانة في صحيحه".

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں