بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر اذان کہنے کا حکم


سوال

قبر پر اذان کہنا کیسا ہے ؟

جواب

تدفین کے بعد قبر پر دعا کرانا تو ثابت اور جائز ہے، لیکن وہاں اذان دینا ثابت نہیں ہے،بلکہ بدعت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند ‌إنزال ‌الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي ‌عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ"

(‌‌باب الأذان، ج:1، ص:375، ط:دار الفكر - بيروت)

 امداد الفتاوی جدید  436-11:

’’علماء نے اس کو رد کیا ہے:کما في ردالمحتار أول باب الأذان، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجه للدنیا، لکن رده ابن حجر في شرح العباب".
بالخصوص جب کہ عوام اس کااہتمام والتزام بھی کرنے لگیں،کما هو عادتهم في أمثال هذه  کہ التزام مالا یلزم سے مباح بلکہ مندوب بھی منہی عنہ ہو جا تا ہے۔ کما صرّح به الفقهاء وفرعوا علیه أحکاماً‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں