قبر میں پوچھے جانےوالےتین سوال 1_ مَنْ رَبُّکَ (تیرا رب کون ہے؟) 2_ مَنْ نَبِيُّكَ (تیرا نبی کون ہے؟) 3_ مَا دِیْنُکَ (تیرا دین کیا ہے؟) کیاقبر میں ہر مسلمان، کافر، مشرک، منافق سے یہ 3 سوال ہوں گے؟
دوسرے سوال کا کافی سرچ کیا سب میں اس سے مراد محمد مصطفٰی ﷺ کو لیا ہے کہ ان کی شبیہ دکھلائی جائےگی کیا ایسا ہی ہے کہ آقا کریم ﷺ کی شبیہ دکھلائی جائےگی یا صرف پوچھا جائےگا من نبیک ؟
جو آقا ﷺ کے امتی نہیں جو دوسرے نبی کے امتی ہیں وہ تو اپنے نبی علیہم السلام کا نام لیں گے یا آقا کریم ﷺ کا اور پھربات یہ بھی آتی ہے کہ قبر میں دیدارِمصطفٰی بھی ہوگا اور سوال ہوگا کہ ان کے بارے میں تم کیا جانتے ہو تو جو دوسرے نبی کے امتی ہیں وہ کیا جواب دیں گے، کیا وہ جانتے ہوں گے، ویسے ہر نبی نے آخری نبی ﷺ کے بارے میں اپنی امت کو بتایا ہے مگر وہ اپنے نبی کا کلمہ پڑھنے والے اپنے نبی کا نام لیں گے اور ہم اپنے نبی کا ؟ واللہ اعلم
1:واضح رہے کہ قبر میں پوچھے جانے والے سوالات ہر مسلمان ،منافق اور کافر سے ہوں گے۔
2:کسی حدیث صریح میں قبر میں میت کو نبی اکرم ﷺ کی صورت دکھلانا ثابت نہیں ہے،البتہ حدیث نبوی میں "ھذا"سے اشارہ کے بارے میں شارحین نے مختلف اقوال ذکرکیے ہیں،1۔کہ میت اور روضہ اقدس ﷺ کے درمیان تمام حجابات کو دور کیاجائے گا۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی شبیہ دکھائی جائے گااور ان کے بارے میں پوچھاجائے گا،3۔ھذا سے اشارہ ہوگا ذہن میں موجود کی طرف تو اشارہ غائب کے لیے نہیں ہوا ،اور یہی راجح ہے ۔
3: ۔احادیث مبارکہ میں جن چیزوں کو ذکر کیاگیاہے وہ اس امت کے بارے میں ہے باقی پچھلے امتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا ہے کہ ان سے کس چیز کے بارے میں سوال ہوتا تھا۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"(4751):"عن أنس بن مالك، قال: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم دخل نخلا لبني النجار، فسمع صوتا ففزع، فقال: "من أصحاب هذه القبور؟ " قالوا: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ناس ماتوا في الجاهلية، فقال: "تعوذوا بالله من عذاب النار، ومن فتنة الدجال قالوا: ومم ذاك يا رسول الله؟ قال: "إن المؤمن إذا وضع في قبره أتاه ملك، فيقول له: ما كنت تعبد؟ فإن الله هداه، قال: كنت أعبد الله، فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: هو عبد الله ورسوله، فما يسأل عن شيء، غيرها فينطلق به إلى بيت كان له في النار، فيقال له: هذا بيتك كان في النار، ولكن الله عصمك ورحمك، فابدلك به بيتا في الجنة، فيقول: دعوني حتى أذهب فابشر أهلي، فيقال له: اسكن وإن الكافر إذا وضع في قبره أتاه ملك فينتهره، فيقول له: ما كنت تعبد؟ فيقول: لا أدري، فيقال له: لا دريت ولا تليت، فيقال له: فما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: كنت أقول ما يقول الناس، فيضربه بمطراق من حديد بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها الخلق غير الثقلين."
"ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے،تو ایک آواز سنی ،آپ ﷺ گھبرا اٹھے ،فرمایا:یہ قبریں کس کی ہیں ؟لوگوں نے عرض کیا :زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا :تم لوگ جہنم سے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو لوگو ں نے عرض کیا :ایسا کیوں ؟اللہ کے رسول !آپ ﷺ نے فرمایا :مومن جب قبر میں رکھا جاتاہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتاہے ،اور اس سے کہتاہے :تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتاہے تو وہ کہتا ہے :میں اللہ کی عبادت کرتاتھا ،پھر اس سے کہا جاتاہے ،تم اس شخص کے بارے میں کیاکہتے تھے ؟تو وہ کہتاہے :وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا،پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتاہے جو اس کےلیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتاہے :یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا ،لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچالیا،تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا،تو وہ کہتاہے :مجھے چھوڑ دو کہ میں جاکر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں ،لیکن اس سے کہاجاتاہے ،ٹھہرا رہ ،اور جب کافر قبر میں رکھا جاتاہے ،تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتاہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتاہے :تو کس کی عبادت کرتاتھا؟تو وہ کہتاہے :میں نہیں جانتا ،تواس سے کہا جاتاہے :نہ تونے جانااور نہ کتاب پڑھی ،پھر اس سے کہاجاتاہے :تواس شخص کے بارے میں کیاکہتاتھا ؟تو وہ کہتاہے:وہی کہتاتھا جو لوگ کہتے تھے ،تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتاہے ،تو وہ اس طرح چلاتاہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے۔"
(4752):"حدثنا عبد الوهاب، بمثل هذا الإسناد، نحوه، قال:"إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم، فيأتيه ملكان، فيقولان له"، فذكر قريبا من حديث الأول، قال فيه: "وأما الكافر والمنافق، فيقولان له" زاد: "المنافق" وقال: "يسمعها من يليه غير الثقلين."
"ترجمہ:عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے :جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتاہے،اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ،اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا ،اور اس میں اس طرح ہے :رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں راوی نے منافق کااضافہ کیاہے اور اس میں ہے اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے ،سوائے آدمی اور جن کے ۔"
ارشادالساری للقسطلانی میں ہے:
"(ما كنت تقول في هذا الرجل؟ لمحمد صلى الله عليه وسلم) بيان من الراوي أي: لأجل محمدعليه الصلاة والسلام، وعبر بذلك امتحانًا، لئلا يتلقن تعظيمه من عبارة القائل. والإشارة في قوله: هذا، للحاضر، فقيل: يكشف للميت حتى يرى النبي صلى الله عليه وسلم وهي بشرى عظيمة للمؤمن إن صح ذلك، ولا نعلم حديثًا صحيحًا مرويًّا في ذلك. والقائل به إنما استند لمجرد أن الإشارة لا تكون، إلا لحاضر. لكن يحتمل أن تكون الإشارة لما في الذهن، فيكون مجازًا."
(کتاب الجنائر،باب ماجاء فی عذاب القبر، ج:2، ص:464، ط:المطبعة الکبری الأمیریة)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"کیا قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا جاتاہے؟
سوال:یہ کہ من ربک ؟ومادینک ؟ومانبیک ؟ کے بعد میت کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :وماتقول فی ھذاالرجل؟کیا رسول اللہ ﷺ مجسم قبر میں تشریف لاتے ہیں ؟ ھذا الرجل سے کیا مراد ہے؟ایک شاعر کہتاہے:
کون آتا ہے لاش پر میری سرسے چادر ہٹائی جاتی ہے
کیا اسم اشارہ اور مشارالیہ غائب کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہے،اس عبارت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً :
شراح حدیث نے لکھا ہے اس کی قبر سےروضہ اقدس تک کے حجابات اٹھا کراشارہ کیا جاتاہےلہذا ھذا کا اشارہ غائب کے لئے نہیں ہوا۔بعض کی رائے یہ ہے کہ معہود ذہنی کی طرف اشارہ ہوتاہے اور مردہ خود بخود جاتناہے کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کے متعلق سوال ہے ۔
فقط واللہ تعالی اعلم ۔حررہ العبد محمود غفرلہ"
( کتاب العقائد، مایتعلق باحوال القبور والارواح ، ج:1،ص:624، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی )
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ومن لا يسأل إلخ) أشار إلى أن سؤال القبر لا يكون لكل أحد ويخالفه ما في السراج: كل ذي روح من بني آدم يسأل في القبر بإجماع أهل السنة لكن يلقن الرضيع الملك، وقيل لا بل يلهمه الله تعالى كما ألهم عيسى في المهد اهـ لكن في حكاية الإجماع نظر. فقد ذكر الحافظ ابن عبد البر أن الآثار دلت على أنه لا يكون إلا لمؤمن أو منافق ممن كان منسوبا إلى أهل القبلة بظاهر الشهادة دون الكافر الجاحد وتعقبه ابن القيم لكن رد عليه الحافظ السيوطي وقال ما قاله ابن عبد البر هو الأرجح ولا أقول سواه."
ونقل العلقمي في شرحه على الجامع الصغير أن الراجح أيضا اختصاص السؤال بهذه الأمة خلافا لما استظهره ابن القيم ونقل أيضا عن الحافظ ابن حجر العسقلاني أن الذي يظهر اختصاص السؤال بالمكلف، وقال وتبعه عليه شيخنا يعني الحافظ السيوطي."
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی سئوال المکین ھل ھو عام لکل أحد أو لا، ج:2، ص:191، ط:دار الفکر)
تذکرۃ بأحوال الموتی وأمور الآخرۃ میں ہے:
"فيقولان: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هو رسول الله، فيقولان له: وما يدريك؟ قال: قرأت كتاب الله فآمنت وصدقت «قال: فينادي مناد من السماء: أن صدق عبدي فأفرشوه من الجنة."
(باب فی سئوال المکین۔۔۔، ص:352، ط:مکتبة دارالمنہاج للنشر والتوزیع)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100801
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن