بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر میں گناہوں پر عذاب اور ایصال ثواب کا مردے پر اثر


سوال

قبر میں مردے کو کون سے گناہوں پر سزا ملتی ہے؟ اور کیا یہ سزا قیامت تک رہتی ہے؟ یا ایصال ثواب کرنے سے ختم ہو جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اللہ رب العزت اس شخص  کو قبر کا عذاب نہیں دیتے جس شخص  نے اللہ کو پہچان کر ،اس کے اوامر اور نواہی کا بجا لاتے ہوئے زندگی گذاری ہو ،البتہ جس شخص  نے اللہ کی معرفت والی زندگی نہیں گذاری اور کے احکام کو ضائع کیا اور معاصی کا ارتکاب کیا تو قبر میں ایسے اشخاص کو  عذاب ہوگا ،کیوں  کہ عذاب  اللہ کے غضب اور ناراضگی کا اثر ہے ،اس لیےجو شخص اس دنیوی زندگی میں  گناہوں کا ارتکاب کر کے اللہ کو ناراض کرے گا اور  توبہ کے بغیر مر جائے گا تو اللہ تعالی اس کو  اپنی ناراضگی اور غصہ کے بقدر   قبر ،حشر اور آخرت میں عذاب دیں گے ،پس کافر تو قیامت تک عذاب میں رہے گا اور پھر حشر میں ،پھر جہنم کے دائمی عذاب میں داخل ہو گا ،اور مسلمان  عاصی  اگر توبہ کے بغیر دنیا سے چل دیا ہو گا تو وہ اس کو    اپنے  گناہوں(چھوٹے ،بڑے ،زیادہ ،کم) کے بقدر قبر میں عذاب   ہوگا۔

اس میں یہ واضح رہے کہ مسلمان دنیا میں جو گناہ کرتے ہیں  ان گناہوں  کی سزا یا  عذاب چار مراحل میں دیا جاتاہے:

1۔دنیا میں ۔2۔قبر میں ۔3۔حشر میں ۔4۔جہنم میں۔

پہلی قسم (دنیاوی عذاب) :

بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں بیماری اور مختلف قسم کی تکالیف کے ذریعے دی جاتی ہے،اگر اس سے ان کے گناہ معاف ہوگئے تو قبر،میدان حشر اور جہنم میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

تنبیہ الغافلین میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه ،أنه قال: ألا أخبركم بأرجى آية في كتاب الله تعالى؟ قالوا: بلى، فقرأ عليهم:{وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير} [الشورى: 30] ، فالمصائب في الدنيا بكسب الأوزار، فإذا عاقبه الله في الدنيا، فالله أكرم من أن يعذبه ثانيا.وإذا عفا عنه في الدنيا فهو أكرم من أن يعذبه يوم القيامة."

339 - وروت عائشة رضي الله تعالى عنها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أنه قال: «ما يصيب المؤمن مصيبة حتى شوكة فما فوقها إلا حط الله عنه بها خطيئة."

(باب الصبر علي البلاء والشدة، ص:255،ط:دار ابن كثير)

دوسری قسم (قبرمیں عذاب):اگر دنیا میں بیماری اور تکالیف  پہنچنے کی وجہ سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو قبر میں عذاب دیا جائے گا،اگر قبر میں سزا کی وجہ سے ان کا تمام گناہ معاف  ہوگئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب نہیں دیا جائےگا۔

کتاب الروح لابن قیم میں ہے:

"النوع الثاني: إلى مدة ثم ينقطع وهو عذاب بعض العصاة الذين خفت جرائمهم فيعذب بحسب جرمه ثم يخفف عنه كما يعذب في النار مدة ثم يزول عنه العذاب.

 وقد ينقطع عنه العذاب بدعاء أو صدقة أو استغفار أو ثواب حج أو قراءة تصل إليه من بعض أقاربه أو غيرهم."

(المسألة الرابعة عشر وهي قوله: عذاب القبر دائم أو منقطع، ص:89، ط:دارالكتب العلمية.بيروت)

تیسری قسم( حشر میں عذاب):

اور اگر قبر کے عذاب سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب دیا جائےگا۔

بخاری شریف میں ہے:

"1402 - حدثنا الحكم بن نافع، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج حدثه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «تأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت، إذا هو لم يعط فيها حقها، تطؤه بأخفافها، وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها، تطؤه بأظلافها، وتنطحه بقرونها»، وقال: «ومن حقها أن تحلب على الماء» قال: " ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها يعار، فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد بلغت، ولا يأتي ببعير يحمله على رقبته له رغاء فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك من الله شيئا، قد بلغت. "

(كتاب الزكاة،باب اثم مانع الزكاة ج:2،ص:105،106،ط:دار طوق النجاة)

چوتھی قسم (جہنم میں عذاب):

اور اگر میدان حشر میں عذاب دینے سے تمام گناہ معاف  ہوگئے تو جہنم میں نہیں ڈالا جائےگا،اور اگر میدان حشر میں  عذاب دینے سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو بقیہ گناہوں کی سزا کے لیے جہنم میں ڈالا جائےگا،یہ عام قانون ہے ،ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی ایمان دار کو اپنے فضل وکرم سےمعاف کرنا چاہے تو معاف کرسکتاہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وتواترت الاحادیث عن رسول اللّٰہ ﷺ انه یخرج من النّار من کان فی قلبه ادنیٰ مثقال ذرّۃ من ایمان الخ۔"

(تفسیر ابن کثیر:ج:1 ص؛537 تحت قوله تعالي: ومن یقتل مؤمنًا متعمداً)  ،

ذیل میں چند احادیث ترجمہ کے ساتھ  ذکر کی جاتی  جن میں ان گناہوں کا ذکر ہے جن پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر کی وعید سنائی ہے ۔

مشكاة  المصابیح ميں هے:

"وعن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول - وفي رواية لمسلم: لا يستنزه من البول - وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين ثم غرز في كل قبر واحدة قالوا يا رسول الله لم صنعت هذا قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا۔"

(کتاب الطہارۃ ،باب اآداب الخلاء ،ج:1،ص:110،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ :

"اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں دیکھ کر)فرمایا کہ" ان دونوں قبر والوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نازل نہیں ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو )،ان میں ایک تو پیشاپ سے نہیں بچتا تھا،  مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ "پیشاپ سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا "پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے آدھوں آدھ چیرا ،انہیں ایک ایک کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا ،صحابہ نے (یہ دیکھ کر )پوچھا "یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "شاید (اس عمل سے )ان کے عذاب میں (اس وقت تک کے لیے )کچھ تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ۔"(مظاہر  حق)

وفیہ ایضاً:

"وعن سمرة بن جندب قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى أقبل علينا بوجهه فقال: «من رأى منكم الليلة رؤيا؟» قال: فإن رأى أحد قصها فيقول: ما شاء الله فسألنا يوما فقال: «هل رأى منكم أحد رؤيا؟» قلنا: لا قال: " لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى أرض مقدسة فإذا رجل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد يدخله في شدقه فيشقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله. قلت: ما هذا؟ قالا: انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة يشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما كان فعاد إليه فضربه فقلت: ما هذا؟ قالا: انطلق فانطلقنا حتى أتينا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع تتوقد تحته نار فإذا ارتفعت ارتفعوا حتى كاد أن يخرجوا منها وإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت: ما هذا؟ قالا: انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم على وسط النهر وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت ما هذا؟ قالا: انطلق فانطلقنا حتى انتهينا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دار أوسط الشجرة لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دار هي أحسن وأفضل منها فيها شيوخ وشباب فقلت لهما: إنكما قد طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت قالا: نعم أما الرجل الذي رأيته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به ما ترى إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل بما فيه بالنهار يفعل به ما رأيت إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكل الربا والشيخ الذي رأيته في أصل الشجرة إبراهيم والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا ميكائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب وفي رواية مثل الربابة البيضاء قالا: ذلك منزلك قلت: دعاني أدخل منزلي قالا: إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملته أتيت منزلك"

ترجمہ:

"حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے  کہ  جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح سے فارغ ہو جا تے تو اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف کر کے دریافت فرماتے کہ کیا آج کی رات  تم میں سے  کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ، اگر ہم میں میں سے  کسی نےخواب دیکھا ہوتا تو وہ اسےبیان کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر مشیت ِالہی کے مطابق فرماتے ،چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سوال فرمایا اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ،ہم نے عرض کیا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،میں نے آج رات یہ خواب دیکھا ہے کہ میرے پاس دو شخص آئے اور وہ میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر مجھے سر زمینِ شام کی طرف لے کر چل دیے،ایک جگہ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص اپنے ہاتھ میں لوہے کا کاتونٹا  لیے کھڑا ہے ،وہ اس کاتونٹے کو بیٹھنے والے شخص کے باچھ میں ڈال کر چیرتا ہوا گدی تک لے جاتا ہے ،پھر دوسرے جبڑے  کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا ہے یعنی گدی تک چیر ڈالتا ہے ،اتنی دیر میں پہلا جبڑا اپنی صحیح حالت پر لوٹ آتا ہے تو وہ اس کے ساتھ پہلے والا معاملہ کرتا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  میں نے یہ دیکھ کر ان دونوں آدمیوں سے پوچھا  یہ کیا ہو رہا ہے   ،ان دونوں نے کہا چلتے رہو یعنی یہ نہ پوچھو کہ کیا ہو رہا ہے یعنی بہت عجائب سامنے آنے والے ہیں ،چنانچہ ہم آگے چل دیے،یہاں تک کہ ہم ایسی جگہ میں آئے جہاں ایک شخص چت لیٹا ہوا تھا اور اس کے سر کے پاس ایک شخص اتنا بڑا پتھر لیے کھڑا تھا ،جس سے ہاتھ پھر جائے ،چنانچہ وہ اس لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچلتا تھا ،جب وہ پتھر کو سر کچلنے کے لیے سر پر مارتا  تو وہ پتھر سر کچل کر لڑکھڑاتا ہوا دور جا گرتا ،چنانچہ وہ دوبارہ مارنے کے لیے اس پتھر کو اٹھانے کے لیے جاتا جب وہ لوٹ کر واپس آتا تو اس کے لوٹنے سے پہلے اس آدمی کا سر درست ہو جاتا اور پھر وہ پتھر مارتا اور سر کچلا جاتا ،یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا ،یعنی سر کچلنا اور اس کا درست ہونا پھر وہ پتھر کا مارا جانا  ،میں نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ،ان دونوں نے جواب دیا چلیے آگے چلیے ،چنانچہ ہم آگے چل دیے ،یہاں تک کہ ہم ایسے گڑھے پر پہنچے جو تندور کی طرح اوپر سے تنگ اور نچلا حصہ کشادہ تھا اور اس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی ،جب آگ کی بھڑک اوپر کو  اٹھتی تو جو لوگ اس آگ کے اندر تھے وہ شعلوں کے ساتھ اوپر آجاتے ،یہاں تک کہ گڑھے کے نکلنے کے قریب ہو جاتے ،جب شعلے کی بھڑک کم ہوتی تو سب دوبارہ اندر چلے جاتے ،اس آگ میں میں نے کئی مرد اور کئی عورتیں دیکھیں جو کہ تمام ننگے تھے ،میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ہے ،تو ان دونوں نے کہا چلیے آگے چلیے ،چنانچہ ہم آگے چل دیے ،یہاں تک کہ خون کی نہر کے کنارے پہنچے ،جس کے درمیان میں ایک شخص کھڑا تھا ،جس کے سامنے پتھروں کا ڈھیر تھا ،نہر والا شخص اس سے نکلنے کے لیے جب کنارے کی طرف آتا تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پتھر برساتا ،جس سے وہ اپنی جگہ دوبارہ لوٹ جاتا ،یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ اندر والا آدمی باہر نکلنے کی کوشش کرتا اور کنارے پر کھڑا ہونے والا اس پر سنگ باری کر کے اسے واپس کرتا ،میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو ان دونوں نے کہا چلیں آگے چلیں ،یہاں تک کہ ہم چلتے ہوئے ایک سر سبز و شاداب باغ میں پہنچے ،اس باغ میں ایک بہت بڑا درخت تھا اور اس کی جڑ کے پاس ایک بوڑھا آدمی کچھ لڑکوں سمیت بیٹھا تھا ،پھر میں نے اس دوران اس درخت کے پاس ایک اور شخص کو دیکھا جس کے سامنے آگ جل رہی ہے ،اور وہ اسے خوب جال اور بھڑکا رہا ہے ،پھر میرے ساتھ والے دونوں آدمی مجھے لے کر درخت پر چڑھے، اور مجھے ایک ایسے مکان میں داخل کیا جو درخت کے درمیان میں تھا ،یہ مکان اتنا شاندار تھا کہ اس سے زیادہ اچھا گھر میں نے آج تک نہ دیکھا تھا ،اس گھر میں بہت زیادہ جوان ،بوڑھے، بچے اور عورتیں تھیں ،اس کے بعد وہ  دونوں آدمی مجھے اس گھر سے نکال کر درخت کے اوپر لے گئے اور مجھے ایک ایسے مکان میں داخل کیا جو پہلے گھر سے بہت اعلی اور افضل تھا ،اس میں بھی بوڑھے اور جوان مرد موجود تھے ،میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا آج رات تم نے مجھے بہت سیر کرائی ،لیکن میں نے جو  کچھ دیکھا اس کی حقیقت مجھے بتلا دو ،ان دونوں نے کہا ہم اس کی حقیقت بتلائے دیتے ہیں ،سنیے ؛جس شخص کو آپ نے دیکھا تھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ جھوٹا آدمی ہے جو جھوٹ بولتا ہے تو لوگ اس کو نقل کرتے ہیں اور اس کا جھوٹ دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتا ہے ،چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو آپ نے دیکھا اور یہ معاملہ اس کے ساتھ قیامت تک جاری رہے گا ،دوسرا وہ شخص ہے جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جارہا ہے ،جسے اللہ نے قرآن کی دولت سے نوازا مگر اس نے قرآن کے مطابق عمل نہ کیا ،چنانچہ اس کے ساتھ کیا جانے والا سلوک آپ نے دیکھ لیا ،یہ سلسلہ اس کے ساتھ قیامت تک جاری رہے گا ،تیسرے وہ لوگ جن کو آپ نے تندور میں  دیکھا ،وہ زنا کار مرد و عورت ہیں ،اور چوتھے جس شخص کو آپ نے خون کی نہر میں دیکھا ،وہ سود خور ہے ،اس کا یہ سلسلہ سدا اسی طرح جاری رہے گا ،پانچویں جس بوڑھے شخص کو آپ نے درخت کی جڑ کے پاس بیٹھے دیکھا، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور اس کے پاس جو بچے ہیں وہ لوگوں کی اولاد ہیں ،چھٹے وہ شخص جس کو آپ نے درخت کے کچھ فاصلہ پر آگ جلاتے دیکھا وہ دوزخ کا داروغہ ہے اور ساتویں وہ پہلا گھر درخت کے اوپر آپ جس میں داخل ہوئے وہ جنت ہے جو عام مومنوں کا ٹھکانا ہے ،اور وہ دوسرا گھر جس میں آپ داخل ہوئے وہ شہداء کا گھر ہے ،میں جبرائیل ہوں یہ میکائیل ہے ،پھر وہ کہنے لگے کہ آپ اپنا سر ااوپر اٹھائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو دیکھا تو بلندی میں بادل کی طرح کوئی چیز ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ تہہ بہ تہہ ابر کی طرح کوئی چیز دیکھی تو انہوں نے کہا ،ابر کی طرح نظر آنے والی چیز یہ جنت میں آپ کا  مکان ہے تو میں نے کہا مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے مکان میں چلا جاؤں ،انہوں نے کہا ابھی آپ کی عمر باقی ہے جس کو آپ نے پورا نہیں کیا ،جب آپ اپنی عمر کو پورا کرلیں گے تو اپنے مکان میں داخل ہو جائیں گے ۔"(مظاہر حق )

وفیہ ایضاً:

"عن زيد بن ثابت قال بينما النبي صلى الله عليه وسلم ‌في ‌حائط ‌لبني ‌النجار ‌على ‌بغلة ‌له ‌ونحن ‌معه إذ حادت به فكادت تلقيه وإذا أقبر ستة أو خمسة أو أربعة قال كذا كان يقول الجريري فقال: من يعرف أصحاب هذه الأقبر فقال رجل أنا قال فمتى مات هؤلاء قال ماتوا في الإشراك فقال إن هذه الأمة تبتلى في قبورها فلولا أن لا تدافنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه ثم أقبل علينا بوجهه فقال تعوذوا بالله من عذاب النار قالوا نعوذ بالله من عذاب النار فقال تعوذوا بالله من عذاب القبر قالوا نعوذ بالله من عذاب القبر قال تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قالوا نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قال تعوذوا بالله من فتنة الدجال قالوا نعوذ بالله من فتنة الدجال۔"

(کتاب الایمان ،باب اثبات عذاب القبر ،ج:1،ص:46 ،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:

"اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک روز)جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرادے ،ناگہاں پانچ چھے قبریں نظر آئیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے ؟ایک شخص نے کہا "میں جانتا ہوں "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  یہ کب مرے ہیں ؟(یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں )اس شخص نے عرض کیا ،یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے )،اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو )دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب ِقبر (کی اس آواز)کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں ،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے  اور فرمایا، آگ کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو ،صحابہ نے عرض کیا ،ہم آگ کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ،قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو ،صحابہ نے عرض کیا ،عذاب ِقبر سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظاہری اور باطنی فتنوں سے خدا کی پناہ مانگو ،صحابہ نے عرض کیا ،ہم  ظاہری اور باطنی فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے فتنہ سے خدا کی پناہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا ہم دجال کے فتنہ سے خدا تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔"(مظاہر حق )

پس انسان کو چاہیئے کہ  اللہ کو راضی کر کے  زندگی گذارے ،اور گناہوں سے بچتا رہے ،اور اگر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لے ،وگر نہ اللہ کی نارضگی اور پکڑ سخت ہے۔

جہاں تک بات ایصال ثواب کی ہے تو  قرآن  پڑھ کر یا دیگر اعمال ِ صالحہ کر کے مردے کو اگر بخشا جائے تو اس کا ثواب مردے کو پہنچتا ہےاور اس سے عذاب میں کمی اور   عذاب کو بالکل منقطع بھی کر دیا  جاتا ہے اور مغفرت بھی کر دی جاتی ہے،حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہو کر سورہ یس پڑھتا ہے تو اس دن اللہ تعالی ان پر سے عذاب  کو ہلکا کر دیتے ہیں ،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالہ عنہ سے روایت ہے کہ  جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی کی قبر پر جا تا ہے اور سورہ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالی ان کی  مغفرت فرما دیتے ہیں۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"قال الخطابي: فيه دليل على استحباب تلاوة الكتاب العزيز على القبور، لأنه إذا كان يرجى عن الميت التخفيف بتسبيح الشجر، فتلاوة القرآن العظيم أعظم رجاء وبركة. قلت: اختلف الناس في هذا المسألة، فذهب أبو حنيفة وأحمد، رضي الله تعالى عنهما، إلى وصول ثواب قراءة القرآن إلى الميت، لما روى أبو بكر النجار في كتاب (السنن) عن علي بن أبي طالب، رضي الله تعالى عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من مر بين المقابر فقرأ: قل هو الله أحد، أحد عشر مرة، ثم وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات) . وفي (سننه) أيضا عن أنس يرفعه: (من دخل المقابر فقرأ سورة: يس، خفف الله عنهم يومئذ) . وعن أبي بكر الصديق، رضي الله تعالى عنه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من زار قبر والدية. أو أحدهما، فقرأ عنده، أو عندهما يس، غفر له)۔"

(کتاب الوضوء،ج:3،ص:118،ط:دار احیاء التراث )

کتاب الروح لابن قیم میں ہے:

"‌‌المسألة التاسعة وهي قول السائل ما الأسباب التي يعذب بها أصحاب القبور" : جوابها من وجهين مجمل ومفصل أما المجمل فانهم يعذبون على جهلهم بالله وإضاعتهم لأمره وارتكابهم لمعاصيه فلا يعذب الله روحا عرفته وأحبته وامتثلت أمره واجتنبت نهيه ولا بدنا كانت فيه أبدا فان عذاب القبر وعذاب الآخرة أثر غضب الله وسخطه على عبده فمن أغضب الله وأسخطه في هذه الدار ثم لم يتب ومات على ذلك كان له من عذاب البرزخ بقدر غضب الله وسخطه عليه فمستقل ومستكثر ومصدق ومكذب۔وأما الجواب المفصل فقد أخبر النبي عن الرجلين الذين رآهما يعذبان في قبورهما يمشى أحدهما بالنميمة بين الناس ويترك الآخر الاستبراء من البول فهذا ترك الطهارة الواجبة وذلك ارتكب السبب الموقع للعداوة بين الناس بلسانه وإن كان صادقا وفي هذا تنبيه على أن الموقع بينهم العداوة بالكذب والزور والبهتان أعظم عذابا كما أن في ترك الاستبراء من البول تنبيها على أن من ترك الصلاة التي الاستبراء من البول بعض واجباتها وشروطها فهو أشد عذابا وفي حديث شعبة أما أحدهما فكان يأكل لحوم الناس فهذا مغتاب وذلك نمام وقد تقدم حديث ابن مسعود رضى الله عنه في الذى ضرب سوطا امتلأ القبر عليه به نارا لكونه صلى صلاة واحدة بغير طهور ومر على مظلوم فلم ينصره۔وقد تقدم حديث سمرة في صحيح البخارى في تعذيب من يكذب الكذبة فتبلغ الآفاق وتعذيب من يقرأ القرآن ثم ينام عنه بالليل ولا يعمل به بالنهار وتعذيب الزناة والزوانى وتعذيب آكل الربا كما شاهدهم النبي في البرزخ۔۔۔۔فكل هؤلاء وأمثالهم يعذبون في قبورهم بهذه الجرائم بحسب كثرتها وقلتها وصغيرها وكبيرها۔ولما كان أكثر الناس كذلك كان أكثر أصحاب القبور معذبين والفائز منهم قليل فظواهر القبور تراب وبواطنها حسرات وعذاب ظواهرها بالتراب والحجارة المنقوشة مبنيات وفي باطنها الدواهى والبليات تغلى بالحسرات كما تغلى القدور بما فيها ويحق لها وقد حيل بينها وبين شهواتها وأمانيها تالله لقد وعظت فما تركت لواعظ مقالا ونادت يا عمار الدنيا لقد عمرتم دارا موشكة بكم زوالا وخربتم دارا أنتم مسرعونى إليها انتقالا عمرتم بيوتا لغيركم منافعها وسكناها وخربتم بيوتا ليس لكم مساكن سواها هذه دار الاستباق ومستودع الاعمال وبذر الزرع وهذه محل للعبر رياض من رياض الجنة أو حفر من حفر النار۔"

(ص:79،ط:دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں