بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو کیا کرے؟


سوال

میرے والد صاحب کے انتقال کو سات سال، جب کہ والدہ صاحبہ کے انتقال کو ایک سال ہوگیا ہے،  والدین کی قبریں کچی اور سادہ رکھی ہیں ، پکی نہیں کروائیں اور نہ ہی قبر پر کوئی تختی وغیرہ لگوائی ہے،  کیوں کہ یہی مسنون طریقہ ہے۔

والد صاحب کی تدفین کے تقریبا ایک مہینہ تک ایصال ثواب کی نیت سے گیا اور والدہ کی تدفین کے بعد تین دفعہ گیا اس کے بعد والدین کے لیے گھر ہی سے روزانہ دعائیں اور ایصال ثواب کرتا ہوں،  بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تم نے والدین کی قبریں پکی نہیں کروائیں تو قبرستان والے والدین کی قبر وں میں دوسرے نئے مردے دفنا دیں گے!  اگر ایسا ہوا تو کیا میں گناہ گار ہوں گا ؟ اور مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

جواب

قبر  (یعنی جتنی جگہ میں میت ہے) پکی کرنے کے حوالے سے احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے قبر  پکی کرنا جائز نہیں، تاہم  قبر کو محفوظ بنانے کے لیے قبر اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، یہ جائز اور درست ہے، یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں،تاکہ قبر محفوظ رہے، لہٰذا اگر قبر کو محفوظ کرنے اور نقصان سے بچانے کی نیت سے یہ عمل کرلیا جائے،تو اس کی گنجائش ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے  قبرکو نقصان سے بچانے کے لیے یا کسی اور کا قبضہ ہونے سے بچانے کے لیے چاروں طرف اس طرح اینٹیں بنادے اور اپنے والدین کی قبر پر آمد ورفت بھی رکھے، کیوں کہ عموماً جن قبروں پر رشتہ داروں کی آمد رفت ہوتی ہے، ان قبروں پر قبضہ نہیں ہوتا اور ویسے بھی ہر جمعہ والدین کی قبر کی زیارت کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، البتہ  اس کے باوجود بھی اگرقبرستان والے اس قبر میں دوسرے مُردے دفنادیں، تو سائل اس سے گناہ گار نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن محمد بن النعمان يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌زار ‌قبر ‌أبويه أو أحدهما في كل جمعة غفر له وكتب برا» ."

(کتاب الجنائز، ج:1، ص:553، ط:المكتب الإسلامي)

فتاویٰ خانیہ میں ہے :

"ویکره الآجر في للحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به". (الخانیة علی هامش الهندیة، 1/194)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة فيوضع الرجل مما يلي القبلة ثم خلفه الغلام ثم خلفه الخنثى ثم خلفه المرأة ويجعل بين كل ميتين حاجز من التراب، كذا في محيط السرخسي، وإن كانا رجلين يقدم في اللحد أفضلهما، هكذا في المحيط، وكذا إذا كانتا امرأتين، هكذا في التتارخانية.

ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(کتاب الصلاۃ، ج:1، ص:166، ط:دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"قبر کو چار طرف سے پختہ بنانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ میں نیچے سے اوپر تک کچی رہے، مباح ہے، یعنی میت کا جسم چاروں طرف سے مٹی کے اندر رہے، پرے پرے پختہ ہوجائے، تو حرج نہیں ہے۔"

(کفایت المفتی، ج:4، ص:50، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں