بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے حرمتی کی وجہ سے میت کی قبرکو دوسری جگہ منتقل کرنا


سوال

آج سے تقریبا پندرہ یابیس سال پہلے چھ افرد کودفن کیاگیاتھا، اس کے بعد مالک زمین نے ان قبرون کے ساتھ مکان تعمیرکردیا، جس کا صحن قبروں کے ساتھ متصل ہے ، اب پوچھنایہ ہے کہ ان قبروں کی بے حرمتی ہوتی ہے ، راستہ بھی قبروں کے اوپر ہے ، آنے جانے میں اسی راستے کواستعمال کیاجاتاہے ، گندگی وغیرہ سے بھی محفوظ نہیں ہے ، اب میتوں کواس جگہ سے منتقل کیاجاسکتاہے یانہیں ؟ دوسری جگہ مناسب بھی ہے، اورقبرستان بھی ہے ، اب مالک زمین ان میتوں کواپنی زمین میں دفن کرنے پر راضی بھی ہے ، لہذااس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ تدفین کے بعد  میت کی منتقلی کی اجازت صرف  اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ اس جگہ، یا کفن،  یا اس قبر کے ساتھ کسی کا حق بایں طور ثابت ہوجائے کہ قبر کی زمین غصب شدہ ہو، یا کفن غصب شدہ ہو یا تدفین کے دوران قبر میں نقدی یا کوئی سامان گرجائے، اور مالک اپنے حق سے دست بردار ہونے کو  تیار نہ ہو، بصورتِ دیگر میت کی منتقلی  جائز نہیں  ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مالک زمین نےجب اپنی زمین میں   مذکورہ میتوں کی تدفین کی اجازت دےدی توان میتوں کوکہیں اور منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ قبروں کے  اوپر چلنے اورگندگی پھیلانے سے احتراز  کرنا چاہیے،   اگرقبروں  کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں دفن میت مٹی بن چکی ہو ں تو اس پر چلنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الجنائز 2/ 238  ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘.

(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الجنائز4/ 486 ، ط: رشیدیۃ)

وفیه أیضاً:

’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط‘‘. 

(کتاب الوقف، ج:2،ص472،ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں