بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کو چومنے اور قبر پر سوال کرنے کا حکم


سوال

قبروں کو چومنا اور وہاں جا کر مانگنا کیسا ہے؟  قرآن اور حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دیں۔

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی یاد دہانی کے لیے وقتاً فوقتاً قبرستان جانے کی ترغیب دی ہے؛ اس لیے قبرستان یامزارات پر تذکیرِ آخرت کی نیت سے جانا جائز، بلکہ مطلوب ہے، بشرطیکہ وہاں جا کر کسی قسم کے شرکیہ افعال وبدعات کا ارتکاب نہ کیا جائے۔

پھر واضح ہو کہ قبروں پر جا کر قبروں کو چومنا اور اس پر  اگربتیاں جلانا یا چراغ  روشن کرنا بدعت و ناجائز ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، نیز صاحبِ قبر کو مختار سمجھتے ہوئے اس سے سوال کرنا بھی حرام ہے۔

باقی اگر قبروں پر جاکر اصحابِ قبور کے لیے دی کی جائے تو یہ جائز بلکہ حدیث سے ثابت ہے، طریقہ اس کا یہ ہے کہ ہاتھ اٹھائے بغیر اورفتنے کااندیشہ نہ ہو تو ہاتھ اٹھاکردعا کی جائے، ہاتھ اٹھانے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر دعا کی جائے؛ تاکہ صاحبِ قبرسے مانگنے کا  شبہ نہ ہو ، اور اگر ہاتھ اٹھاکردعا کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہوتو ہاتھ اٹھاکردعا نہ کی جائے۔ 

الفتاوى الهندية (5/ 351):

قال برهان الترجماني: لا نعرف وضع اليد على المقابر سنةً ولا مستحسنًا ولا نرى به بأسًا، وقال عين الأئمة الكرابيسي: هكذا وجدناه من غير نكير من السلف، وقال شمس الأئمة المكي: بدعة، كذا في القنية.ولا يمسح القبر ولا يقبله فإن ذلك من عادة النصارى ولا بأس بتقبيل قبر والديه كذا في الغرائب.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں