بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کی زیارت کے لیے سفر کا حکم


سوال

قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا کیسا ہے ؟

جواب

قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے جیساکہ امام غزالی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

’’ثواب کی نیت سے سفر کرنے کی جملہ اقسام  میں انبیاءِ کرام کی قبورِ مبارکہ کی زیارت کے لیے اور صحابہ کرام ، تابعین اور تمام علماءِ کرام اور اولیاءِ عظام اور ہر اس شخص کی قبر کی زیارت کے لیے جس کی حیات میں اس کے مشاہدے  سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا اب اس کی وفات کے بعد اس کی قبر کی زیارت سے برکت حاصل کرنے کے سفر کرنا یہ سب اس میں داخل ہے، اور اس غرض کے لیے سفر کرنا جائز ہے، اور آپ ﷺ کے اس قول کہ” تین مساجد (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ، اور مسجد نبوی) کے علاوہ  کے لیے رخت سفر نہ باندھو“ کی ممانعت میں یہ داخل نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دیگر مساجد کے بارے میں ہے، اس لیے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر تمام مساجد رتبہ میں برابر ہیں،  اور انبیاء ، اولیاء اور علماء کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نفسِ فضیلت میں برابر ہے، اگرچہ  اللہ کے یہاں ان کے درجات مختلف ہونے کی وجہ سے اس کے درجات میں بہت بڑا فرق ہے۔انتھی

إحياء علوم الدين (2/ 247):
"ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام وزيارة قبور الصحابة والتابعين وسائر العلماء والأولياء وكل من يتبرك بمشاهدته في حياته يتبرك بزيارته بعد وفاته ويجوز شد الرحال لهذا الغرض ولايمنع من هذا قوله صلى الله عليه وسلم: لاتشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الأقصى؛ لأن ذلك في المساجد فإنها متماثلة بعد هذه المساجد وإلا فلا فرق بين زيارة قبور الأنبياء والأولياء والعلماء في أصل الفضل وإن كان يتفاوت في الدرجات تفاوتًا عظيمًا بحسب اختلاف درجاتهم عند الله".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں