بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے عذاب پر اشکال


سوال

ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ اگر کسی گناہ گار کو 5000 سال پہلے سے قبر میں عذاب ہورہا ہے اور کسی گناہ گار کو قرب قیامت اس کی موت کے بعد عذاب قبر ہوگا تو دونوں کے عذابوں میں بڑا فرق ہوجائے گا، کہ ایک کو اتنا طویل عذاب ملا اور ایک کو مختصر ملا، اس بارے میں رہنمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ انسان دنیا میں جوبھی  گناہ کرتے ہیں  ، تو اللہ تعالی کی مرضی ہے چاہے اپنے فضل سے  معاف کردیں یا پھر انسانوں کو  ان کے گناہوں  کی سزا  اور عذاب دیں  ،نیز اس سزا اور   عذاب  کےچار مراحل ہیں:

1۔دنیا میں ۔2۔قبر میں ۔3۔حشر میں ۔4۔جہنم میں۔

پہلی قسم (دنیاوی عذاب) :

بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں بیماری اور مختلف قسم کی تکالیف کے ذریعے دی جاتی ہے،اگر اس سے ان کا گناہ معاف ہوگیا تو قبر،میدان حشر اور جہنم میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

دوسری قسم (قبرمیں عذاب):

اگر دنیا میں بیماری اور تکالیف  پہنچنے کی وجہ سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو قبر میں عذاب دیا جائے گا،اگر قبر میں سزا کی وجہ سے ان کے تمام گناہ معاف  ہوگئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب نہیں دیا جائےگا۔

تیسری قسم( حشر میں عذاب):

اور اگر قبر کے عذاب سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب دیا جائےگا۔

چوتھی قسم (جہنم میں عذاب):

اور اگر میدان حشر میں عذاب دینے سے تمام گناہ معاف  ہوگئے تو جہنم میں نہیں ڈالا جائےگا،اور اگر میدان حشر میں  عذاب دینے سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو بقیہ گناہوں کی سزا کے لیے جہنم میں ڈالا جائےگا،یہ عام قانون ہے ،ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی ایمان دار کو اپنے فضل وکرم سےمعاف کرنا چاہے تو معاف کرسکتاہے۔

لہذا مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کسی شخص کو پانچ ہزار سال سے عذاب ہورہا ہے اور اس کی سزا قبر میں پوری ہوگئی تو وہ آخرت میں جہنم میں نہیں جاۓ گا، لیکن ایک شخص قرب قیامت میں  مرا اور اس  نے قبر میں اپنی سزا پوری نہیں کی تو ا س صورت میں اس کو بقیہ عذاب میدان محشر یا جہنم میں ہوگا، نیز یہ بات  بھی  یاد رہے کہ  عالم برزخ  اور عالم آخرت میں دنیا کی طرح وقت نہیں ہوتا، لہذا ان دونوں عالم کو دنیا کے وقت پر قیاس کر کے سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

تنبیہ الغافلین میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه ،أنه قال: ألا أخبركم بأرجى آية في كتاب الله تعالى؟ قالوا: بلى، فقرأ عليهم:{وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير} [الشورى: 30] ، فالمصائب في الدنيا بكسب الأوزار، فإذا عاقبه الله في الدنيا، فالله أكرم من أن يعذبه ثانيا.وإذا عفا عنه في الدنيا فهو أكرم من أن يعذبه يوم القيامة.

339 - وروت عائشة رضي الله تعالى عنها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أنه قال: «ما يصيب المؤمن مصيبة حتى شوكة فما فوقها إلا حط الله عنه بها خطيئة."

(باب الصبر علي البلاء والشدة، ص:255،ط:دار ابن كثير)

کتاب الروح لابن قیم میں ہے:

"النوع الثاني: إلى مدة ثم ينقطع وهو عذاب بعض العصاة الذين خفت جرائمهم فيعذب بحسب جرمه ثم يخفف عنه كما يعذب في النار مدة ثم يزول عنه العذاب.

 وقد ينقطع عنه العذاب بدعاء أو صدقة أو استغفار أو ثواب حج أو قراءة تصل إليه من بعض أقاربه أو غيرهم."

(المسألة الرابعة عشر، وهي قوله: عذاب القبر دائم أو منقطع، ص:89، ط:دارالكتب العلمية.بيروت)

بخاری شریف میں ہے:

"1402 - حدثنا الحكم بن نافع، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج حدثه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «تأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت، إذا هو لم يعط فيها حقها، تطؤه بأخفافها، وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها، تطؤه بأظلافها، وتنطحه بقرونها»، وقال: «ومن حقها أن تحلب على الماء» قال: " ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها يعار، فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد بلغت، ولا يأتي ببعير يحمله على رقبته له رغاء فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك من الله شيئا، قد بلغت. "

(كتاب الزكاة،باب اثم مانع الزكاة ج:2،ص:105،106،ط:دار طوق النجاة)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وتواترت الاحادیث عن رسول اللّٰہ ﷺ انه یخرج من النّار من کان فی قلبه ادنیٰ مثقال ذرّۃ من ایمان الخ۔"

(تفسیر ابن کثیر:ج:1 ص؛537 تحت قوله تعالي: ومن یقتل مؤمنًا متعمداً) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412100505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں