بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے پاس نشید پڑھنا


سوال

قبر کے پاس نشید پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

مرد یا عورت کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر کوئی  نعت  یا نشید وغیرہ پڑھنا شریعت میں ثابت نہیں ہے،  اس کو ثواب کی نیت سے یا  لازم اور  ضروری سمجھ کرنا بدعت ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر اس نشید میں موسیقی یا خلافِ  شرع الفاظ ہوں تو اس کی قباحت مزید  زیادہ  ہوجائے  گی۔

واضح رہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد جب مٹی ڈالنے کا کام مکمل ہوجائے تو میت کے سرہانے  (سر کے پاس) سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں ”الم“سے ”المفلحون “  تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی (پاؤں کی طرف) پر سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“ سے آخر تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح تدفین کے بعد کچھ دیر وہیں ٹھہرنا اور  میت کے لیے دعا اور ایصال ثواب کرتے رہنا بھی مستحب ہے۔

         "فتاوی شامی" میں ہے:

'' ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه.

(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت ؛ فإنه الآن يسأل۔» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها''.

(2/237،  باب صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)

''الاعتصام للشاطبی'' میں ہے:

''ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته''.

(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں