بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے کتبے پر عورت کا نام لکھنے کا حکم


سوال

 کیا قبر کے کتبہ پر عورت کا نام لکھنا یا اس کے شوہر کے ساتھ منسوب کرنا شرعی طور پر جائز ہے مثلا فلاں ( عورت کا نام ) زوجہ فلاں (شوہر کا نام ) راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے  کہ قبر کے سرہانے ماربل یاپتھر کاکتبہ لگاناجس پر میت کا نام تحریر ہومباح ہے، لیکن  اگر میت عورت ہو تو اپنا نام لکھنے کے بجائے زوجہ فلاں، یا بنت فلاں لکھنا چاہیے۔

فتوی شامی میں ہے:

'(قوله: لا بأس بالكتابة إلخ) لأن النهي عنها وإن صح فقد وجد الإجماع العملي بها، فقد أخرج الحاكم النهي عنها من طرق، ثم قال: هذه الأسانيد صحيحة،وليس العمل عليها، فإن أئمة المسلمين من المشرق إلى المغرب مكتوب على قبورهم، وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف اهـ ويتقوى بما أخرجه أبو داود بإسناد جيد «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حمل حجرا فوضعها عند رأس عثمان بن مظعون وقال: أتعلم بها قبر أخي وأدفن إليه من تاب من أهلي» فإن الكتابة طريق إلى تعرف القبر بها، نعم يظهر أن محل هذا الإجماع العملي على الرخصة فيها ما إذا كانت الحاجة داعية إليه في الجملة كما أشار إليه في المحيط بقوله وإن احتيج إلى الكتابة، حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به. فأما الكتابة بغير عذر فلا اهـ حتى إنه يكره كتابة شيء عليه من القرآن أو الشعر أو إطراء مدح له ونحو ذلك حلية ملخصا.'

(‌باب صلاۃ الجنائز ،مطلب ‌في ‌دفن ‌الميت،ج:2،ص237/ 238،ط:سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

'کوئی خاص ضرورت ہو ،مثلاً: قبر کا نشان باقی رہے، قبر کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو،لوگ اسے پامال نہ کریں ،اس ضرورت کے پیش نظر قبر پر حسبِ ضرورت نام اور تاریخ وفات لکھنے کی گنجائش ہے، ضرورت سے زائد لکھناجائز نہیں۔اور قرآنِ پاک کی آیت اور کلمہ وغیرہ تو ہرگز نہ لکھاجائے۔

(کتاب الجنائز، ج:7،ص140،ط:دار الاشاعت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں