بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے کتبہ پر قرآن کی آیات لکھنا


سوال

 قبر کی تختی پر قرآن مجید کی آیات چار قل آیت الکرسی کلمہ وغیرہ لکھوانا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

 قبر کے کتبہ پر قرآن کی آیات اور کلمہ وغیرہ  لکھنا  شریعت سے ثابت نہیں ہے،نیز  اس میں قرآن مجید کی آیات اور کلمہ کی بے حرمتی کا اندیشہ بھی ہوتا ہے،اس لیے قبر کے کتبوں وغیرہ پر چاروں قل،آیت الکرسی  اور کلمہ  وغیرہ لکھنا شرعا مکروہ ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"لا بأس بالكتابة إن احتيج إليها حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن

(قوله لا بأس بالكتابة إلخ) لأن النهي عنها وإن صح فقد وجد الإجماع العملي بها، فقد أخرج الحاكم النهي عنها من طرق، ثم قال: هذه الأسانيد صحيحة وليس العمل عليها، فإن أئمة المسلمين من المشرق إلى المغرب مكتوب على قبورهم، وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف اهـ ويتقوى بما أخرجه أبو داود بإسناد جيد «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حمل حجرا فوضعها عند رأس عثمان بن مظعون وقال: أتعلم بها قبر أخي وأدفن إليه من تاب من أهلي» فإن الكتابة طريق إلى تعرف القبر بها، نعم يظهر أن محل هذا الإجماع العملي على الرخصة فيها ما إذا كانت الحاجة داعية إليه في الجملة كما أشار إليه في المحيط بقوله وإن احتيج إلى الكتابة، حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به. فأما الكتابة بغير عذر فلا اهـ حتى إنه يكره كتابة شيء عليه من القرآن أو الشعر أو إطراء مدح له ونحو ذلك حلية ملخصا."

(باب صلاۃ الجنازۃ،ج2،ص238،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"تكره كتابة القرآن وأسماء الله تعالى على الدراهم والمحاريب والجدران وما يفرش، وما ذاك إلا لاحترامه، وخشية وطئه ونحوه مما فيه إهانة، فالمنع هنا بالأولى ما لم يثبت عن المجتهد أو ينقل فيه حديث ثابت، فتأمل."

(باب صلاۃ الجنازۃ،ج2،ص246۔247،ط؛سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’کوئی خاص ضرورت ہو ،مثلاً: قبر کا نشان باقی رہے، قبر کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو،لوگ اسے پامال نہ کریں، اس ضرورت کے پیش نظر قبر پر حسبِ ضرورت نام اور تاریخ وفات لکھنے کی گنجائش ہے، ضرورت سے زائد لکھناجائز نہیں۔اور قرآنِ پاک کی آیت اور کلمہ وغیرہ تو ہرگز نہ لکھاجائے۔‘‘

(باب چہارم ،احکام میت ،ج7،ص140،،ط: دارالاشاعت  ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں