بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کےاوپرچھوٹےچھوٹےپتھر رکھنےکا حکم


سوال

قبر کے اوپر بہت زیادہ مقدار میں چھوٹے چھوٹے کنکررکھنے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہےکہ قبرکے صرف دائیں بائیں سے کوئی پتھر لگادینا  کہ اصل قبر  (یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے) کچی مٹی کی ہو، اور اردگرد پتھر، یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے کہ قبر کا نشان نہ مٹ جائے، یا اردگر زمین پر پختہ فرش کردیا جائے تاکہ قبر واضح ہوجائے، اس کی اجازت ہے، البتہ  اس کے لیے سادہ پتھر استعمال کیا جائے زیب وزینت والا کوئی پتھر نہ ہو،لہٰذا  قبر  کو (میت کی محاذات میں جتنی زمین ہے اسے)  کچا رکھنا ضروری ہے، قبر پکا کرنا اور اس کی تزیین کی خاطر اس پر زیب وزینت والےچھوٹےچھوٹےپتھر رکھناشرعاً درست نہیں ہے،البتہ اگرقبر کی حفاظت کی خاطرقبر کےاوپر چھوٹےچھوٹےسادہ پتھر رکھےجائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ 

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"(ويكره البناء عليه) ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية، قال في غريب الخطابي: نهى عن تقصيص القبور وتكليلها. انتهى. التقصيص التجصيص والتكليل: بناء الكاسل، وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ... وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظًا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به".

(باب أحكام الجنائز، 611، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ولا ‌يجصص) للنهي عنه (ولا يطين، ولا يرفع عليه بناء،وقيل لا بأس به وهو المختار) كما في كراهة السراجية.وفي جنائزها: لا بأس بالكتابة إن احتيج  إليها حتى لا يذهب الاثر ولا يمتهن".

"(قوله: وقيل: لا بأس به إلخ) المناسب ذكره عقب قوله: ولا يطين لأن عبارة السراجية كما نقله الرحمتي ذكر في تجريد أبي الفضل أن تطيين القبور مكروه والمختار أنه لا يكره اهـ وعزاه إليها المصنف في المنح أيضا. وأما البناء عليه فلم أر من اختار جوازه. وفي شرح المنية عن منية المفتي: المختار أنه لا يكره التطيين. وعن أبي حنيفة: يكره أن يبني عليه بناء من بيت أو قبة أو نحو ذلك، لما روى جابر «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن تجصيص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها» رواه مسلم وغيره اهـ نعم في الإمداد عن الكبرى: واليوم اعتادوا التسنيم باللبن صيانة للقبر عن النبش، ورأوا ذلك حسنا. وقال - صلى الله عليه وسلم - «ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن» . اهـ".

(باب صلاة الجنازة، 237/2، ط: سعيد)

زاد المعاد میں ہے: 

"ولم یکن من هدیه صلی اللّٰه علیه وسلم تعلیة القبور ولا بناء ها بآجر، ولا بحجر ولبن، ولا تشییدها، ولا تطیینها، ولا بناء القباب علیها، فکل هذا بدعة مکروهة مخالفة لهدیه صلی اللّٰه علیه وسلم، وقد بعث علي بن أبي طالب إلی الیمن ألا یدع تمثلاً إلا طمسه، ولا قبر مشرفاً إلا سَوَّاه فسنته صلی اللّٰه علیه وسلم تسویة هذه القبور المشرفة کلها، ونهى أن یجصص القبر، وأن یبنی علیه، وأن یکتب علیه، وکانت قبور أصحابه لا مشرفة ولا لاطئة، وهکذا کان قبره الکریم وقبر صاحبیه، فقبره صلی اللّٰه علیه وسلم مُسَنَّمٌ مبطوح ببطحاء العرصة الحمراء لا مبنيَّ ولا مطینَ، وهکذا کان قبر صاحبیه."

( فصل في تعلیة القبور،۱/۵۰۵، ط: موٴسسة الرسالة، بیروت)

کفایت المفتی میں ایک سوال کےجواب میں ہے:

"(جواب:21)قبرکےگردپتھرلگانےسےبشرطیکہ قبر پختہ نہ ہونےپائےصرف یہی مقصودہوسکتاہےکہ آثارِ قبرمٹنےنہ پائیں،اس صورت میں خوبصورت وبد صورت پتھردونوں ایک ہی ساکام دیں گے،اور اگر یہ خیال ہوکہ لوگ دیکھ کر خوش ہوں اور ریاء و سمعہ مقصود ہو تواس صورت میں خوبصورت کجا بدصورت کا لگانا بھی حرام ہوگا"۔

(کتاب الجنائز، 46/4، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں