بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرکے اوپر پاؤں رکھنے کا حکم


سوال

قبرستان میں کسی قبر کے اوپر پاؤں کا رکھنا کس درجہ کا گناہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام نے انسان کو جس طرح زندگی میں مکرم اور محترم بنایاہے، اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کے تمام شرافتوں اور کرامتوں کو برقرار رکھاہے،قبرستان میں مدفون انسان بھی ان تمام شرافتوں کی وجہ سے محترم ہے، مسلمان کے لیے ان کی تحقیر اور بے حرمتی کرنا جائز نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے سے سختی سے منع فرمایاہے۔

مسلم شریف کی روایت ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من أن يجلس على قبر."

ترجمہ:۔‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی ایک انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال تک پہنچے تو بھی بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے۔"

(کتاب الجنائز،باب النھی عن الجلوس علی القبروالصلاۃ علیہا،ج:2،ص:667،رقم:971،ط:مطبعة عيسى البابي الحلبي)

لہذا قبرستان میں مدفون انسانوں کی قبروں پر بلاضرورت پاؤں رکھنا اوران کے اوپر بیٹھنا انسانی توقیر کے خلاف ہونے کی وجہ سے علماء نے مکروہ کہا ہے، لہذا اس سے اجتنا ب لازم ہے۔

فتح المنعم شرح صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه۔۔۔عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من أن يجلس على قبر۔۔۔ويؤخذ من الرواية الخامسة والسابعة منع الجلوس على القبرقال النووي: وكذا الاستناد إليه والاتكاء عليه، كل ذلك مكروه عندنا وعند أبي حنيفة وأحمد. وقال مالك: لا يكره ۔۔۔ملخصاً."

(کتاب الجنائز ،باب القبور وزیارتہا،ج:4،ص:249/ 250/ 260،ط:دارالشروق)

البحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"(قوله ولا يجصص) لحديث جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص ‌القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه» وأن يوطأ وفي المجتبى ويكره أن يطأ ‌القبر أو يجلس أو ينام عليه أو يقضي عليه حاجة من بول أو غائط أو يصلى عليه أو إليه ثم المشي عليه يكره."

(کتاب الجنائز، الصلاۃ علی المیت فی المسجد،ج:2،ص:209،ط:دارلکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره ‌الجلوس على ‌القبر، ووطؤه، وحينئذ فما يصنعه من دفنت حول أقاربه خلق من وطء تلك القبور إلى أن يصل إلى قبر قريبه مكروه وفي خزانة الفتاوى وعن أبي حنيفة: لا يوطأ ‌القبر إلا لضرورة، ويزار من بعيد ولا يقعد، وإن فعل يكره. وقال بعضهم: لا بأس بأن يطأ القبور وهو يقرأ أو يسبح أو يدعو لهم."

(باب صلاۃ الجنائز،‌‌مطلب في وضع الجريد ونحو الآس على القبور،ج:2،ص:245،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں