بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاتل اوراس کی مدد کرنے والے کا حکم


سوال

ہمارے دو رشتہ داروں کا آپس میں جھگڑا ہوا،جھگڑا ختم ہونے کے بعد  دونوں اپنے اپنے گھر چلے گئے،بعد میں قاتل اور اس کا بھائی کلاشن اور پستول لے کر مقتول کے گھر پہنچےاور کہا کہ اگر مرد ہو تو باہر نکلو،مقتول نے گھر سے کلاشن اٹھانے کی کوشش کی، لیکن بیوی نے کلاشن والی الماری کو تالا لگایااور شوہر کو روکنے کی کوشش کی ،مگر مقتول گھر کی دیوار پھلانگ کر باہر آیا،جیسے ہی باہر آیا تو پستول والے بھائی نے گولی چلائی اور اسے جان سے مار ڈالا،کلاشن والا بھائی بھی اپنے پستول والے بھائی کی مدد کے لیے  اس کے ساتھ نکلا تھا،مگر موقع پر  گولی پستول والے بھائی نے چلائی،اب قاتل پر یا اس کے کلاشن والے بھائی پرشرعاً کیا لازم آئے گا،رہنمائی فرمائیں، اگر کوئی ان کے درمیان فیصلہ کرنا چاہے تو کس طریقے سے فیصلہ کرے؟

جواب

واضح رہے کہ قتل میں اعانت اور معاونت کی مختلف صورتیں ہیں، اگر معاونت کرنے والا شخص قتل کے فعل میں شریک ہو اور کئی اشخاص مل کرایک شخص کو قتل کریں تو سب سے قصاص لیا جائے گا، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :

"اگر منی کے باشندے جمع ہو کر کسی ایک مسلمان کو عمدًا قتل کریں تو میں ا س کے بدلے سب کو قتل کروں گا۔"

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مقدمہ پیش ہوا، جس میں یمن کے چار افراد نے مل کر ایک بچے کو قتل کیا تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سب سے قصاص لینے کا حکم جاری کیا"۔

 لیکن اگر تعاون صرف معاونت کی حد تک ہی ہو، معاون شخص قتل میں عملًا شریک نہ ہو تو اس سے قصا ص نہیں لیا جائے گا، ایسے ہی ایک شخص کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فیصلہ سنایا کہ:

قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا، مقتول کے پکڑنے والے کو قاتل کے برابر سزا نہیں دی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی طرح ایک شخص کوعمر بھر قید کی سزا سنائی۔

 صورتِ مسئولہ میں کلاشن والا بھائی شرعاً  شریکِ قتل نہیں ہے، جس بھائی نے پستول کی گولی سے مقتول پر وار کیا ہے وہی قاتل ہے، قاتل پر  شرعاً قصاص لازم ہے جوکہ حکومت کی ذمہ داری ہے،اور جو بھائی ساتھ تھا اسے حکومت یا عدالت  اپنی صوابدید کے مطابق سزا دینے کا اختیا ر رکھتی ہے ، ہاں اگرمقتول   کے ورثاء قصاص معاف کرکے قاتل سے دیت(خون بہا) لینا چاہے تو ان کو   اختیار ہے ،دیت کی مقدار دس ہزار درہم چاندی  یا اس کی قیمت ہے،ایک درہم 3.0168گرام چاندی کے برابر ہے،اس حساب سے دیت کی مقدار 30.618 کلو گرام چاندی کے برابر ہے، یہ دیت صرف قاتل پر لازم ہوگی۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن إسماعيل بن أمية، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل أمسك رجلا وقتل الآخر قال: يقتل القاتل، ويحبس الممسك."

(السنن الكبرى للبيهقي، جماع أبواب صفة قتل العمد وشبه العمد، باب الرجل يحبس الرجل للآخر فيقتله 8/ 90 ط: دار الكتب العلمية)

"عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: أنه قضى في رجل قتل رجلا متعمدا وأمسكه آخر  قال: يقتل القاتل ويحبس الآخر في السجن حتى يموت."

(معرفة السنن والآثار 12/ 59 دار قتيبة، دمشق)

فتح القدیر میں ہے:

(وموجب ذلك المأثم) لقوله تعالى {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم} [النساء: 93] الآية، وقد نطق به غير واحد من السنة، وعليه انعقد إجماع الأمةقال (والقود) لقوله تعالى {كتب عليكم القصاص في القتلى} [البقرة: 178] إلا أنه تقيد بوصف العمدية لقوله - عليه الصلاة والسلام - «العمد قود» أي موجبه، ولأن الجناية بها تتكامل وحكمة الزجر عليها تتوفر، والعقوبة المتناهية لا شرع لها دون ذلك قال (إلا أن يعفو الأولياء أو يصالحوا) ؛ لأن الحق لهم 

ـ(کتاب الجنایات ج 207/10ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

(ومن العين ألف دينار ومن الورق عشرة آلاف درهم)

(کتاب الدیات ج275/10ط:دارالفکر)

"ولكن الخلاف فى حكم من اتفق ولم يحضر القتل، أو أعان عليه ولم يباشره فأبو حنيفة والشافعى وأحمد يرون القصاص من المباشر فقط، وتعزير من لم يباشر."

(التشريع الجنائي في الإسلام 3/ 138 ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں